قبرِ اخی پر یہی کہتی تھی روکر بہن
الوداع صد الوداع اے مرے بھائی حسین
لٹ کے بہن جاتی ہے سوئے مدینہ اخی
شانوں میں رسی بندھی قیدی بنائی گئی
دل میں قلق ہے یہی دے نہیں پائی کفن
الوداع صد الوداع اے مرے بھائی حسین
لٹ گیے سب مال و زر خیمے جلائے گیے
بے ردا بازار میں ہائے پھرائے گیے
ختم نہ ہوگی کبھی دل سے مرے یہ چبھن
جس کو وطن جانے کا تھا بڑا ارماں وہی
شام کے زندان میں مر گئی روتی ہوئی
ایک جلا کُرتا ہی بن گیا اُسکا کفن
برسرِ ریگِ تپاں دھوپ میں جلتا رہا
جلتی زمیں ترا لاشہ تھا عریاں پڑا
اے مرے تشنہ دہن ہائے دُریدہ بدن
دشت میں مارے گیے بھائی بھتیجے سبھی
حد ہے کہ مارا گیا اصغرِ بے شیر بھی
سبکی ہوں میں سوگوار پیکرِ رنج و محن
ہاتھوں پہ اپنے لیے داغِ رسن جاتی ہوں
دل پہ بہتر کا داغ لے کے وطن جاتی ہوں
مر گیے جنگل میں سب جیتی رہی یہ بہن
ہم کو مدینے سے تم لایے تھے کس شان سے
بھائی بھتیجے پسر بھانجے سب ساتھ تھے
مر گیے پیاسے سبھی ہائے غریب الوطن
ہر نفس اک بار ہے بھائی تمہارے بغیر
زندگی دشوار ہے بھائی تمہارے بغیر
شمعِ درِ پنجتن، سبطِ رسولِ زمن
چھوڑ کے عارف لحد دکھیا بہن جب چلی
روکے یہ کہتی رہی فی امان اللہ اخی
آنکھوں میں آنسو لیے گھر کو چلی انجمن
No comments:
Post a Comment