زندان ستم سے تو رہا ہو گئی زینب
پر بالی سکینہ سے جدا ہو گئی زینب
کیا تھی جو مدینہ سے چلی تھی سوئے کربل
عاشور سے اک سال میں کیا ہو گئی زینب
بے چادری کچھ کم تو شہادت سے نہیں ہے
اُمّت کے لیے حق پہ فدا ہو گئی زینب
جس کوفہ کی شہزادی کہی جاتی تھی اک روز
اُس کوفہ میں کیوں باغی بھلا ہو گئی زینب؟
تھا طالب بیعت کو گماں فتح کا لیکن
بیعت کے لیے بھائی کی لا ہو گئی زینب
جب سو گیے عباس لب علقمہ عارف
پھر مثلِ علمدارِ وفا ہو گئی زینب
عسکری عارف
No comments:
Post a Comment