تازہ مرثیہ درحال چہلم شہدائے کربلا علیہم السلام اجمعین
زنداں سے چھٹ کے کرب و بلا آئے جب حرم
پہنچے ہیں جب شہیدوں کی تربت پہ اہل غم
اشکوں سے تربتوں کو کیا وارثوں کی نم
روتے تھے یوں کہ تن سے نکلنے لگا تھا دم
عباسؑ و اکبرؑ و علی اصغرؑ کی قبر پر
گریہ کناں تھے سبط پیمبرؐ کی قبر پر
لیلیٰؐ جو پہنچی قبر پہ اپنے جوان کی
لپٹی لحد سے اور یہ آواز رو کے دی
اکبرؑ اٹھو کہ اماں رہا ہو کے آ گئی
بیٹا تمہارے بعد ہے برباد زندگی
اکبرؑ ترے بغیر وطن کیسے جاؤں گی
تا عمر تیری یاد میں آنسو بہاؤں گی
اے میرے دل کے چین مرے نوجواں پسر
آنکھوں کے نور اے میری تسکینِ جاں پسر
اماں کو اپنی قبر میں دیدو اماں پسر
بن تم بتاؤ جائے یہ مادر کہاں پسر
تم سے لپٹ کے حال سفر کا سناؤں گی
اٹھو تمہارے سینے پہ مرحم لگاؤں گی
بانوؐ تھی قبرِ اصغرِؑ گل رو پہ اشکبار
روتی تھی پیٹ کر سر و سینہ وہ دلفگار
روکر پکاری اے مرے ششماہے شیرخوار
اٹھو کہ اماں آئی ہے کرنے کو تمکو پیار
ہاتھوں کو اپنے جھولا بناکر جھلاؤں گی
اصغرؑ میں تمکو لوری سناکر سلاؤں گی
سوتے ہو کیسے خاک کے اندر اے گلبدن
یہ ریگزار تپتا ہوا، اور اجاڑ بن
تمکو بھی مل نہ پایا مرے لاڈلے کفن
کیا نہ چلوگے ساتھ میں اماں کے تم وطن
اِس سن میں میرے مہلقہ تم گھر کو چھوڑ کر
سوئے ہو کیسے دشت میں مادر کو چھوڑ کر
قاسمؑ کی قبر پر تھا یہ فرواؐ کا مرثیہ
آئی ہوں لٹ کو بے سر و سامان، غمزدہ
بیٹا تمہارے بعد مرا کچھ نہیں بچا
تقسیم زندگی میں ہوئے ہائے غربتا
تاعمر اب یہ سوچ کے دل پاش پاش ہے
ٹکڑوں میں زیرِ ریگ تپاں تیری لاش ہے
قاسمؑ تمہارے بعد ہوئی ماں برہنہ سر
اِس حال میں پھرائے گیے ہم اِدھر اُدھر
رکھا گیا تھا نوک سناں پر تمہارا سر
سر پر تمہارے پڑتی تھی جب بھی مری نظر
پھٹتا تھا دل، غموں سے بدن سرد ہوتا تھا
آنکھوں سے اشک بہتے تھے، منہ زرد ہوتا
عابؑد سے بولیں زینبِؐ مضطر بچشم تر
بیٹا بتاؤں تربت عباسؑ ہے کدھر
عابؑد پھوپھی کو لائے پھر اک ننہی قبر پر
بولیں جگر کو تھام کے مغموم نوحہ گر
میں مانتی نہیں کہ دلاور کی قبر ہے
سجاؑد یہ تو ننہے سے اصغر کی قبر ہے
سُن کر سُخن پھوپھی کے تھے سجادؑ اشکبار
روتے تھے سر کو پیٹ کے بیمار زار زار
بولے پھوپھی یہ قبر ہے عمو کی، ہوشیار
صدمہ سے دل کو تھام کے بولی وہ غمگسار
تقسیم ہوکے شہؑ کا وفادار رہ گیا
ٹکڑوں میں بنٹ کے میرا علمدار رہ گیا
قبرِ اخی پہ بولی یہ روکر بہن حسینؑ
تشنہ دہن حسینؑ، غریب الوطن حسینؑ
لوٹا ہے ظالموں نے ترا پیرہن حسینؑ
عریاں پڑا تھا ریگِ تپاں پر بدن حسینؑ
جکڑی تھی بازوؤں میں رسن، میں نہ دے سکی
بھیاّ مُعاف کرنا کفن میں نہ دے سکی
روئی ہر ایک مقام پہ زہرؐا کی لاڈلی
لیکن نہ اپنے بیٹوں کی تربت پہ آہ کی
دو چھوٹی چھوٹی قبروں کو حسرت سے تکتی تھی
بیٹھی ہوئی مزار پہ کہتی رہی یہی
بھیا کو اور اُنکے دلاروں کو روؤں گی
میں فاطمہؐ کی گود کے پالوں کو روؤں گی
گھیرے ہوئے تھے تربتِ شبیرؑ کو حرم
لیلی،ؐ ربابؐ گرتی تھیں غش کھا کے دمبدم
منہ رکھ کے قبرِ شاہؑ پہ بولیں بصد الم
برباد ہو گیے مرے سرکار اب تو ہم
اُجڑی ہماری گود، سہارے بچھڑ گیے
جنگل میں اپنے راج دلارے بچھڑ گیے
کس منہ سے جائیں اب سوئے یثرب شکستہ حال
قاسمؑ کی لاش ہو چکی جنگل میں پائمال
سینہ فگار سوتا ہے کڑیل جوان لعل
گردن چھدا کے سو گیا اصغرؑ سا نو نہال
دل غم سے چاک چاک ہیں احساس مر گیے
جائیں وطن بھی کیسے کہ عباسؑ مر گیے
نالاں تھے ایسے اہلحرم روزِ اربعیں
لرزاں تھی شورِ نالا و فریاد سے زمیں
رکھتے سر پہ خاک کبھی خاک پر جبیں
عارفؔ جگر میں ضبط کی قوت بھی اب نہیں
تھکتے تھے رو کے تب کہیں خاموش ہوتے تھے
آلِ نبیؐ مزاروں پہ بے ہوش ہوتے تھے
عسکری عارف
No comments:
Post a Comment