Sunday, 18 February 2024

مسدس حضرت علی اصغر علیہ السلام

ایک پرانا مسدس شیرخوار کربلا شہزادہء علی اصغر ع. کی  شان میں-

مجھکو پہچانے زمانہ علی اصغؑر ہوں میں
سن ہے چھ ماہ، مگر طاقت سروؑر ہوں میں
جسکی مسکان ہے تلوار وہ لشکر ہوں میں
اپنے دادا سا بہادر ہوں عضنفر ہوں میں
بخدا سنگ زمیں ہیرے جواہر اُگلے
ایڑیاں رگڑوں تو ریتی بھی سمندر اُگلے

یہ شرف مجھکو ملا دادا علیؑ ہے میرا
دونوں عالم کی ہے ملکہ مری دادی زہرؐا
بابا شبیؑر مرا صبر و تحمل کا خدا
بھائی ہیں اکبر ؑو سجاؑد اور عباؑس چچا
لب پہ رہتا ہے فرشتوں کے فسانہ میرا
سب سے افضل ہے زمانے میں گھرانا میرا

یوں تو اصغرؑ ہوں مگر کام بڑا کرتا ہوں
اپنے پیروں پہ شریعت کو کھڑا کرتا ہوں
وقت اگر  دین پہ آیے تو  لڑا  کرتا ہوں
تیر سا سینہء بیعت میں گڑا کرتا ہوں
حرملاؤں کے مرے سامنے دم ٹوٹتے ہیں
خندگی سے مری پیکان ستم ٹوٹتے ہیں

نیزہ و تیر  و تبر  اور یہ  خنجر کیسے
کیسی تلوار بھلا   گرز  یہ پتھر کیسے
حرملہ ابن انس رجس کے پیکر کیسے
دشمنِ دین کے یہ کھوکھلے لشکر کیسے
واسطے اِن کے تو زاری ہے تبسم میرا
لاکھ شمشیروں پہ بھاری ہے تبسم میرا

بے زباں ہوکے بھی انداز بیاں رکھتا ہوں
اپنے جذبات کو دنیا سے نہاں رکھتا ہوں
تشنہ ہوکر بھی سمندر کو رواں رکھتا ہوں
کمسنی میں بھی میں اسرار جواں رکھتا ہوں
دیکھنے میں تو میں چھوٹا سا علی اصغؑر ہوں
ہاں مگر عزم و شجاعت میں علی اکبؑر ہوں

جو کبھی کھل ہی نہیں سکتا وہی راز ہوں میں
ہر زمانے میں خدا والوں کی آواز ہوں میں
میں بھی حیدؑر ہوں، مجاہد بھی ہوں جاں باز ہوں میں
انتہا جسکی نہیں کوئی، وہ پرواز ہوں میں
دیر تک فکرِ مسلسل میں سفر کرتا ہوں
تب کہیں ذہن میں انسان کے گھر کرتا ہوں

یاد تو ہوگا تمہیں کرب و بلا کا منظر
قتل جب ہو گیے شبیرؑ کے سارے یاور
اپنی آغوش میں پھر لائے تھے مجھکو سرورؑ
پھیر کے خشک زباں اُس گھڑی اپنے لب پر
ظلم کو اُسکی ہی اوقات بتائی میں نے
جیت لی ایک ہی حملے میں لڑائی میں نے

اپنے حالات سے ہارے ہو تو پھر آ جاؤ
رنج و آلام کے مارے ہو تو پھر آ جاؤ
ڈھونڈتے تم جو سہارے ہو تو پھر آ جاؤ
گر حقیقت میں ہمارے ہو تو پھر آ جاؤ
قربت اللہ سے دیتا ہے وسیلہ میرا
نیک حاجات کو پُر کرتا ہے جھولا میرا

خوف ہے جسکا لعیں پر وہ لہو میرا ہے
جو ہے سرورؑ کی جبیں پر وہ لہو میرا ہے
جسکا احسان ہے دیں پر وہ لہو میرا ہے
ابر برسائے زمیں پر وہ لہو میرا ہے
آب ہوتا نہ زمیں پر کوئی دانہ ہوتا
خونِ ناحق جو میرا شاہؑ نے پھینکا ہوتا

تو بھی بن جا مری دہلیز کا نوکر عارف
تجھکو مل جائیں گے ادراک کے گوہر عارف
تو بھی ہو جائے گا اک روز سخنور عارف
چوم تو جھولا مرا ہاتھ بڑھا کر عارف
تری   پہچان  کو  آباد  رکھے  گی دنیا
فیض سے مرے تجھے یاد رکھے گی دنیا
عسکری عارف

No comments:

Post a Comment

خراج تحسین حسن نصراللہ

خراجِ تحسین شہیدِ مقاومت آیت اللہ سید حسن نصراللہؒ مردِ حق، سید و سردار حسن نصراللہؒ بے سہاروں کے  مددگار حسن نصراللہؒ فوجِ  ایماں کے علمدار...