پھر چاند محرم کا نظر آیا فلک پر
آنکھوں سے رواں ہو گیے اشکوں کے سمندر
اللہ رے پردیس میں سادات کی غربت
سہ روز کے پیاسے ہوئے مقتول بہتر
چھ ماہ کے بچے کو بھی مل پایا نہ پانی
چھیدا گیا ناوک سے گلوئے علی اصغرؑ
تیروں سے چھدی مشک قلم ہو گیے شانے
منہ بل گرے پھر گھوڑے سے عباسؑ دلاور
الجھا رہا پھل برچھی کا سینے میں جواں کے
اِس حال میں دنیا سے سدھارے علی اکبرؑ
قاسمؑ کو لگی خون کی مہندی سرِ مقتل
ٹکڑوں میں بنٹا دشت میں فروی کا مقدر
زینبؐ کے پسر عونؑ و محمدؑ گیے مارے
روئیں نہ مگر بچوں کو شبیرؑ کی خواہر
جس حلق کو چوما تھا محمدؐ سے نبی نے
اُس سوکھے ہوئے حلق پہ پھیرا گیا خنجر
کیا خوب ہوئی پنجتنِ پاک کی توقیر
بے گور و کفن خاک پہ تھا لاشہء سرورؑ
اک روز میں مارے گیے اٹھارہ برادر
حیدرؑ کی دلاری ہوئی بے مقنع و چادر
No comments:
Post a Comment