مرثیہ درحال اسیریِ اہلحرم بازار شام
اے مومنو رقم ہے مصائب وہ پُر الم
جس وقت آئے شام کے بازار میں حرم
قیدی، غریب و ناتواں پابندِ رنج و غم
بالوں سے اپنے منہ کو چھپائے بچشمِ نم
مجمع تھا شامیوں کا عجب اہتمام تھا
خاموش سر کو اپنے جھکائے امامؑ تھا
چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھے تماشبین
بدکار و بدخصال و بد اطوار وہ لعین
اہل حرم کھڑے تھے جھکائے ہوئے جبین
ہنستے تھے دیکھ دیکھ کے اُنکو منافقین
کچھ بھی نہ احترام کیا آلِ نور کا
صدقہ اچھالتے تھے حرمؑ پر کھجور کا
مجمع تھا اس قدر کہ نہ چلنے کی راہ تھی
زین العباؑ کی شرم سے حالت تباہ تھی
عابدؑ کے واسطے یہ زمیں قتل گاہ تھی
نیزوں پہ سر بریدہ حسینی سپاہ تھی
اِس غم سے بچ نکلنے کا چارہ کوئی نہ تھا
بیمار و بے وطن کا سہارا کوئی نہ تھا
زینبؐ کے سر پہ جب گئی شبیرؑ کی نظر
رونے لگا سناں پہ سرِ شاہِؑ بحر و بر
آئی صدا حسینؑ کی زینبؐ تو صبر کر
ہمت نہ ٹوٹے تیری بہن اِس محاذ پر
امّت کے حق میں بددعا ہرگز نہ کیجیو
اِس وقت صبر و شکر سے تم کام لیجیو
بولیں یہ سن کے ثانیِ زہراؐ بصد ادب
بھیا تمہارے واسطے میرا نثار سب
آئی ہوں سر برہنہ میں بلوے میں اِس سبب
باقی رہے شریعت و دینِ شہِ عربؐ
میں بددعا کو ہات نہ ہرگز اٹھاؤں گی
بے پردہ ہی یزید کے دربار جاؤں گی
بازار سے تھا چند قدم قصر شام کا
لیکن ہجوم ایسا تماشائیوں کا تھا
ملتا نہ تھا اسیروں کو چلنے کا راستہ
بارہ پہر میں پہنچا ہے دربار قافلہ
ہر اک قدم پہ اہلِ ستم سے جدال تھا
اہل حرمؑ کا سانس بھی لینا محال تھا
اہلِ عزا سنو یہ ذرا تھام کے جگر
بارہ گلوں کو ایک ہی رسی میں باندھ کر
قصرِ ستم میں کھینچ کے لے آئے اہلِ شر
لائے گیے غلاموں کی مانند نوحہ گر
بالی سکینہؐ کہتی تھی پیہم مدد کرو
رسی سے گھُٹ رہا ہے مرا دم مدد کرو
پہنچی ہیں جبکہ قصرِ ستمگر میں بیبیاں
بے پردہ آلِ مصطفٰیؐ، پابندِ ریسماں
بیٹھا ہوا تھا تخت پہ ملعون و بدگماں
کُرسی نشین سیکڑوں موجود تھے وہاں
آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر رکھے ہوئے
اہلِ حرم دلوں پہ تھے پتھر رکھے ہوئے
لیتا تھا نامِ زینبؐ و کلثومؐ جب لعیں
سیدانیوں کے چہروں کو تکتے تھے اہل کیں
غم سے نڈھال ہوتے تھے سجادِؑ دل حزیں
غیرت سے زرد ہوتی تھی بیمار کی جبیں
زینبؐ سے ہمکلام شرابی یزید تھا
اس بات کا امامؑ کو صدمہ شدید تھا
ہونٹوں پہ مارتا تھا چھڑی شہؑ کے بدشعار
کرتا تھا مدح اپنے بزرگوں کی بار بار
کہتا تھا میری جیت ہوئی اور تمہاری ہار
تھے اہلبیتؑ دیکھ کے منظر یہ اشکبار
بولے چھڑی نے مار یہ زہراؐ کا چین ہے
ہونٹ اِسکے چومتے تھے نبیؐ، یہ حسینؑ ہے
بولا یزید نحس ہوئے تم ذلیل و خوار
عزت ہماری اور ہمارا ہے اقتدار
خوش ہوں گے آج ہم سے ہمارے بزرگوار
آیا ہے باپ دادا کی روحوں کو اب قرار
کاٹا گیا جو سر پسِ گردن حسینؑ کا
بدلہ لیا ہے ہم نے یہ بدر و حنین کا
کرتا ہوں ختم مرثیہ عارفؔ بحال زار
بے پردگیِ اہلحرم کا ہوں سوگوار
اِس غم سے دل ملول ہے آنکھیں ہیں اشکبار
آلِ نبیؐ پہ یوں تو ہوئے ظلم بے شمار
لیکن اسیری اُنکی قیامت سے کم نہیں
بے پردگی کے غم سے بڑا کوئی غم نہیں
عسکری عارفؔ
No comments:
Post a Comment