یہ خط میں ابن مظاہر کو شہ نے لکھا ہے
پسر بتول کا دشت بلا میں تنہا ہے
ہمارے چارو طرف دشمنوں کا نرغہ ہے
حبیب آؤ مدد کو بلا رہا ہے حسین
حبیب تمکو خبر بھی ہے دشت کربل میں
ہمارے خون کے پیاسے عدو ہیں مقتل میں
اماں نہیں ہے ہمیں کربلا کے جنگل میں
سپاہ شام کا چاروں طرف سے پہرا ہے
ہو جتنی جلد چلے آؤ اے مرے یاور
بہت قلیل ہے اس دشت میں مرا لشکر
وگرنہ ہوگی ملاقات پھر سرِ محشر
ہمارے ساتھ جو تمکو شہید ہونا ہے
تو کیا ہوا جو مخالف مرا زمانہ ہے
حبیب دوست کی نصرت کو تمکو آنا ہے
خدا کی راہ میں تمکو بھی سر کٹانا ہے
تمہارا نام شہیدوں میں میں نے لکھا ہے
فقیہ وقت ہو تم، بے بدل مجاہد ہو
مطیع رب ہو، بڑے متقی ہو زاہد ہو
ہے جس پہ ناز عبادت کو ایسے عابد ہو
نبی کے دین پہ مشکل یہ وقت آیا ہے
پڑھا جو نامہ تو زار و قطار رونے لگے
جگر کو تھام کے بے اختیار رونے لگے
الم سے ہو گیا دل بے قرار رونے لگے
پکاری زوجہ کہ والی یہ ماجرا کیا ہے
کہا حبیب نے مولا کا میرے نامہ ہے
مجھے مدد کے لیے کربلا بلایا ہے
کہا یہ زوجہ نے بتلائیں کی ا ارادہ ہے
حبیب بولے پس و پیش کا یہ لمحہ ہے
یہ سن کے زوجہ نے فرمایا وائے ہو تم پر
گھرا ہے نرغہ اعدا میں فاطمہ کا پسر
حبیب چین سے بیٹھے ہوئے ہو تم گھر پر
بروزِ حشر نبی کو بھی منہ دکھانا ہے
حبیب بولے یہ بس امتحاں تمہارا تھا
پکارے مجھکو مدد کو بتول کا جایا
نہ اُسکی مدد کو یہ ہو نہیں سکتا
ہو جتنی جلد ہمیں کربلا پہنچنا ہے
نکل کے کوفہ سے کرب و بلا حبیب آئے
برائے نصرتِ سرور زہے نصیب آئے
تو پیشوائی کو عباسؑ بھی قریب آئے
حسینؑ بولے بہن نے سلام بھیجا ہے
سُخن یہ سنتے ہی عارفؔ حبیبؑ تھرائے
پکارے کیسے یہ سیدانیوں پہ دن آئے
کہ بنتِ فاطمہ زہراؐ سلام بھجوائے
نبی کی آل پہ یہ وقت کیسا آیا ہے
No comments:
Post a Comment