آتی تھیں یاد جب بھی اسیری کی سختیاں

آتی تھیں یاد جب بھی اسیری کی سختیاں
الشام کہ کے روتے تھے سجادِ ناتواں

بعدِ  حسین  ڈھائے  گیے ظلم بے شمار
مل پایا ایک پل بھی نہ بیمار کو قرار
تھیں بے کجواوہ اونٹوں پہ سیدانیاں سوار
بے پردہ تھیں رسولِ خدا کی نواسیاں
الشام کہ کے روتے تھے۔۔۔۔۔۔

بے   پردہ   اہلبیتِ  محمدؐ  کا  کارواں
زنجیر و طوق میں تھا گرفتار ناتواں
ہاتو میں ہتکڑی تھی تو پیروں میں بیڑیاں
سر تھے جھکائے شرم سے سجادِ خستہ جاں

وہ شامیوں کی بھیڑ وہ ناموسِ مصطفٰی
رسی میں ہاتھ جکڑے تھے، سب کا تھا سر کھلا
رہ رہ کے گونجتی تھی منادی کی یہ صدا
آکر تماشہ دیکھ لو سادات کا یہاں
الشام کہ کے روتے تھے سجاد ناتواں

چوراہے پر رکا تھا اسیروں کا کارواں
بازار میں تھیں چارو طرف شیشہ بندیاں
بالوں سے اپنے منہ کو چھپائے تھیں بیبیاں
خنجر تھا قلبِ سید سجاد پر رواں

پھٹتے تھے کان شور تھا ایسا ہجوم کا
بازار شام میں تھا وہ ماحول دھوم کا
مجمع تھا چار سمت فقط اہل شوم کا
پہروں کھڑی تھیں فاطمہ زہرا کی بیٹیاں

بازار سے  تھا کچھ ہی قدم قصر شام کا
چھتیس گھنٹے پھر بھی لگے وا مصیبتا
ہر  اک  قدم  تھا  میل کی  مانند  با خدا
نامحرموں کے بیچ گھرا تھا یوں کاروں

دربارِ شام  پہنچے جو  قیدی بچشمِ تر
بیٹھا ہوا   تھا حاکمِ  ملعون  تخت  پر
اہلحرم کھڑے تھے رسن بستہ ننگے سر
آنسو تھے چشمِ سیدِ سجاد سے رواں

کربل سے  شام  تک  کا مصائب بھرا سفر
جس کے سبب سے جھک گئی بیمار کی کمر
چوبیس سال میں تھی ضعیفی امام پر
بارِ الم سے پڑ گئیں چہرے پہ جھرّیاں

گردن میں زخم، پاؤں میں چھالوں کے تھے نشاں
پیروں کا گوشت کھا گئیں لوہے کی بیڑیاں
عارفؔ ہو کیسے غربتِ سجادؑ کا بیاں
آنکھیں ہیں اشکبار، تخیل دھواں دھواں
عسکری عارف

Comments

Popular posts from this blog

مسدس مولا عباس

منقبت مولا علی علیہ السلام

منقبت رسول اللہ ص اور امام جعفر صادق علیہ السلام