نوحہ سجاد سے رو رو کے یہ کہتی تھیں سکینہ
سجاد سے رو رو کے یہ کہتی تھی سکینہ
بھیا مجھے ظالم کے طمانچوں سے بچا لو
میں آہ بھی کرتی ہوں تو لگتا ہے طمانچہ
بھیا مجھے ظالم کے طمانچوں۔۔
اِس عالمِ غربت میں کروں کس سے میں شکوہ
بے یار و مددگار ہوں پردیس میں تنہا
ہر گام مجھے یاد بہت آتے ہیں بابا
عباس چچا کی بھی جدائی کا ہے صدمہ
تم جکڑے ہو زنجیروں میں پیارے مرے بھیا
عاشور سے اک پل بھی نہیں مجھکو اماں ہے
زخمی مرے کانوں سے ابھی خون رواں ہے
اور پیاس کی شدت سے مری خشک زباں ہے
چہرے پہ ستمگار کی انگلی کا نشاں ہے
دل کرتا ہے جب مجھ پہ ستم ڈھاتے ہیں اعدا
بھیا مجھے ظالم کے طمانچوں۔۔
جب سامنے آتا ہے مرے شمرِ ستمگر
دل میرا لرزتا ہے مرے سینے کے اندر
تھراتا ہے سب جسم، تڑپ جاتی ہوں ڈرکر
چھپ جاتی ہوں میں آپ کے پیچھے اے برادر
پر شمر کے آگے مرا کچھ بس نہیں چلتا
کس موڑ پہ تقدیر مجھے لائی ہے بھائی
خواہر تری مجبور ہے دکھ پائی ہے بھائی
یہ حالِ اسیری بڑا دکھدائی ہے بھائی
اب زندگی بس رنج ہے رسوائی ہے بھائی
اے کاش کہ مر جائے سفر میں تری بہنا
عباس کی گودی میں پلی تھی جو سکینہ
گلزارِ امامت کی کلی تھی جو سکینہ
دو گام بھی پیدل نہ چلی تھی جو سکینہ
تسکینِ حسین ابنِ علی تھی جو سکینہ
اب ہو گئی آلام و مصائب سے شکستہ
یہ سن کے تڑپنے لگے سجاد بصد غم
کہنے لگے خواہر سے یہ بادیدہ پرنم
ہے وزن سے لنگر کے بہن میری کمر خم
میں سانس بھی لیتا ہوں نکلتا ہے مرا دم
زنجیروں میں جکڑا ہے بہن بھائی تمہارا
کیسے تمہیں ظالم کے طمانچوں سے بچاؤں
روتا ہوں ترے حال پہ اے خواہر مغموم
جو حال تمہارا ہے مجھے خوب ہے معلوم
میں بھی ہوں گرفتارِ ستم تم بھی ہو مظلوم
ہو بعدِ پدر بھائی کی شفقت سے بھی محروم
ہر وقت یہی سوچ کے پھٹتا ہے کلیجہ
کیسے تمہیں ظالم کے۔۔۔۔
زنجیروں میں۔۔۔
عارفؔ ہوں بیاں کیسے بہن بھائی کی غربت
تھی بعدِ پدر دونوں پہ ہر گام قیامت
وہ سیکڑوں میلوں کی مسافت وہ نقاہت
سہتی تھی بہن سامنے بھائی کے اذیت
سجاد لہو روتے تھے کہتے تھے سکینہ
زنجیروں میں جکڑا ہے بہن۔۔۔۔
کیسے۔۔۔
Comments
Post a Comment