نوحہ ہاتھ میں لے کر جنازہ اصغر بے شیر کا
ہاتھ میں لے کر جنازہ اصغرِ بے شیر کا
کھودتے ہیں ننہی تربت اور روتے ہیں حسینؑ
کہتے ہیں کس جرم میں بیٹا تجھے مارا گیا
کھودتے ہیں ننہی تربت اور روتے ہیں حسینؑ
کتنا پیاسا ہے زمانے کو دکھانے کے لیے
میں تو آیا تھا تجھے پانی پلانے کے لیے
پانی کے بدلے ترا چھیدا گیا سوکھا گلا
چل رہا ہے غم کا خنجر سینہء صد چاک میں
چاند سی صورت تری کیسے چھپاؤں خاک میں
چھ مہینے میں ہوا تو ہائے بابا سے جدا
اے مرے نورِ نظر ہے کس قدر مظلوم تو
اپنے منہ سے تونے اُگلا دودھ کے بدلے لہو
جسم کا سارا لہو گردن سے تیری بہ گیا
رکھ چکے جب قبر میں بے شیر کی میت حسین
یاس سے تکتے رہے اصغر کو شاہِ مشرقین
اشک تھے مولا کی آنکھوں سے رواں بے ساختہ
ڈالتے تھے دھیرے دھیرے خاک میت پر امام
چھپ گیا بے شیر کا جب جسم مٹی میں تمام
قبر سے لپٹے ہوئے روتے تھے شاہِ کربلا
پاس مولا کے چھڑکنے کے لیے پانی نہ تھا
قبر کو اشکوں سے تر کرتا تھا ابنِ فاطمہ
ہائے اصغر دم بدم ہونٹوں پہ تھی شہ کے صدا
ہو رقم کیسے بھلا عارفؔ وہ منظر جس گھڑی
قبرِ اصغرؑ سے ہوئے رخصت حسین ابن علی
لڑکھڑاتے تھے قدم چلنے کا بھی یارا نہ تھا
عسکری عارفؔ
Comments
Post a Comment