شام غریباں
ہائے شام غریباں
جب کٹ گیا شبیرؑ کا سر دشتِ بلا میں
انصار ہوئے قتل سبھی راہِ خدا میں
اک دھوم مچی لشکرِ اربابِ جفا میں
مظلومی تھی غربت تھی فقط آلِ عبا میں
سادات پہ کرنے کو ستم اور زیادہ
خیموں کو جلانے کے لیے آ گیے اعدا
اسبابِ حرم لوٹنے کا کرکے ارادہ
جب خیموں میں لشکر عمرِ سعد کا آیا
سادات میں اک حشر تھا، کہرام بپا تھا
بچوں کے جگر ہلتے تھے، روتی تھی سکینہؐ
ہر سمت فقط گریہ و زاری کا سماں تھا
اولادِ محمدؐ پہ گرا کوہِ گراں تھا
وہ جن سے زمانے میں تھا پردے کا چلن عام
انکی ہی ردا لوٹنے کو آئے خوں آشام
ہنستے ہوئے آتے تھے نظر اشقیا ہر گام
تھی اہلحرم پر یہ قیامت سے بڑی شام
سادات کی آنکھوں سے لہو پھوٹ رہے تھے
ہنس ہنس کے ستمگار ردا لوٹ رہے تھے
جب شمر نے زینبؐ کی ردا نیزے سے لوٹی
غیرت سے موئی فاطمہ زہراؐ کی دلاری
عباسؑ کو زینبؐ نے کئی بار صدا دی
کہتی تھی بصد یاس کہاں ہو مرے غازی
قربان ہوا پردہ مرا راہِ خدا میں
لو لٹ گئی زینبؐ کی ردا کرب و بلا میں
آیا جو سکینہؐ کے قریں شمرِ ستمگر
گھبرائی بہت دیکھ کے ظالم کو وہ مضطر
چاہا کہ اتر جائیں مرے کانوں سے گوہر
گوہر نہ اتر پائے تو رونے لگی بے پر
کانوں سے گہر کھینچ کے جب شمر نے چھینا
رونے لگی پھر چیخ کے معصوم سکینہؐ
عسکری عارفؔ
Comments
Post a Comment