نوحہ مدینہ ائے ہیں اہل حرم زندان سے چھٹ کر
مدینہ آئے ہیں اہل حرم زندان سے چھٹ کر
بدن پر کالے کپڑے ہیں، سفر کی گرد چہرے پر
مدینہ دیکھ کر کلثوم نے رو کر پڑھا نوحہ
مدینہ تو ہمارے آنے کو مقبول مت کرنا
گیے تھے جب یہاں سے تھا چمن آباد زہرا کا
ہماری گودیاں اجڑیں، نہیں وارث رہے سر پر
جو پردے کا محافظ تھا لبِ دریا گیا مارا
تڑپ کے
تڑپ کر زانوئے شبیر پہ اکبرؑ نے دم توڑا
ہوا پامال گھوڑوں کی سموں سے دلبرِ فروی
لگا تیرِ ستم چھ ماہ کے اصغرؑ کی گردن پر
اداسی چھائی ہے چہروں پہ آنکھوں میں ہیں اشکِ غم
کچھ ایسے زخم ہیں دل میں نہیں جن کا کوئی مرہم
سروں کو پیٹ کر کرتا ہے کنبہ نوح و ماتم
مدینہ لٹ گیا لوگوں صدا دیتے ہیں رو رو کر
ضعیفی آ گئی سجاد پر بارِ مصیبت سے
لرزتا ہے بدن بیمار کا ضعف و نقاہت سے
چلا جاتا نہیں دو گام چھالوں کی اذیت سے
گلا زخمی ہے ایسا سانس بھی لینا ہوا دوبھر
پڑے ہیں پیاس سے کانٹے یتیموں کی زبانوں میں
نشانِ ریسماں تازہ ہیں بیواؤں کے شانوں میں
فقط سجادؑ ہی زندہ ہیں مردوں میں جوانوں میں
ہوئے پردیس میں برباد ایسے آلِ پیغمبرؐ
جو جینے کا سہارا تھے انہیں جنگل میں چھوڑ آئے
دلوں پر داغ ہیں سب کے کوئی کیسے سکوں پائے
وہ ہنستا کھیلتا کنبہ ، وہ کمسن اور جواں ہائے
بتائیں کیا کسے آئے ہیں کیا پردیس میں کھو کر
کہا صغری نے روکے ہے کہاں بھیا علی اکبر
کہا تھا لینے آئے گا تمہیں صغری علی اکبر
میں تکتی رہ گئی رستہ نہیں آیا علی اکبر
پھوپھی اماں بتاؤ دل پہ چلتا ہے مرے خنجر
کہا زینب نے اے صغری نہ پوچھو اے مری دلبر
سناں سینے پہ کھا کے مر گیا ہمشکل پیغمبر
جواں کی لاش بچوں کے سہارے لائے تھے سرور
دمِ آخر تمہاری یاد میں روتا رہا اکبر
مزارِ احمدِ مرسل پہ زینب نے کہا روکر
گلوئے خشک پہ شبیر کے پھیرا گیا خنجر
پڑا تھا بے کفن جلتی زمیں پر لاشہء سرور
کفن بھی دے نہ پائی میں، بہت مجبور تھی خواہر
رکھا زینبؐ نے عمامہ جو شہؑ کا قبرِ احمدؐ پر
بلند ہونے لگی قبرِ نبیؐ، برپا ہوا محشر
صدا آئی لحد سے صبر کر اے دخترِ حیدرؑ
مجھے معلوم ہے صدمے اٹھائے تونے جو مضطر
تڑپتے تھے حرم، اک حشر تھا اُس دم مدینہ میں
بپا تھا شورِ گریہ، نوحہ و ماتم مدینہ میں
تھی چھائی ہر طرف عارفؔ فضائے غم مدینہ میں
فضا میں وا حسینا کی صدا اٹھتی تھی رہ رہ کر
عسکری عارفؔ
Comments
Post a Comment