Posts

Showing posts from September, 2025

میں روز ازل سے ہوں طلبگار مدینہ نعت شریف

نعت شریف بحضور سرور کائنات محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم میں روزِ ازل سے ہوں طلبگارِ مدینہ اللہ مجھے کر دے گرفتارِ مدینہ پھر اُسکو مسیحائی کی حاجت نہیں ہوتی اک بار جو ہو جاتا ہے بیمارِ مدینہ اب میری نظر گنبدِ خضری پہ ٹکی ہے لو مجھ پہ بھی کُھلنے لگے اسرارِ مدینہ مخلوقِ خداوند ہے مقروضِ محمدؐ ہر کوئی جہاں میں ہے نمکخوارِ مدینہ محروم تھی آداب و ادب سے یہ خدائی جب تک نہ کھُلا مکتبِ اطوارِ مدینہ سامرّا، نجف، کرب و بلا، مشہد و مکہ جو بُغض رکھے اِن سے ہے غدارِ مدینہ ہے فیضِ کرم عام زمانے پہ نبیؐ کا وا سب کے لیے ہے درِ سرکارِ مدینہ 'والشمس' و 'الی النور' ہوئے جسکا قصیدہ وہ ذاتِ نبیؐ مطلعِ انوار مدینہ 'لولاک لما'، عشقِ محمدؐ کی گواہی 'والفجر' ثنائے درِ شہوارِ مدینہ عارفؔ کو بھی حاصل ہو شرف اے مرے مولا اب جلد بنا دے اِسے زوارِ مدینہ عسکری عارفؔ

نعت ذرہ ذرہ گلزار ہوا سرکار دو عالم آئے ہیں

ذرہ ذرہ گلزار ہوا سرکارِ دو عالم آئے ہیں رحمت سے جہاں سرشار ہوا سرکار دو عالم آئے ہیں ہر سمت سے خوشبو آتی ہے، ہر پھول کھِلا ہے گلشن میں رہ رہ کے چہکتی ہے بلبل، بھوروں کی صدا ہے گلشن میں صحرا صحرا گلزار ہوا سرکارِ دو عالم آئے ہیں مکہ کی زمیں پر اترا ہے اک نور سراپا رحمت کا لو جہل کی ظلمت ختم ہوئی، ہر سو ہے اجالا رحمت کا رحمت سے جہاں ضوبار ہوا سرکار دو عالم آئے ہیں آتی ہے صدائے صلِ علی، ہر مومن کا دل شاد ہوا منصوبہء باطل چاک ہوا اور کفر کا گھر برباد ہوا شیطان ذلیل و خوار ہوا سرکارِ دو عالم آئے ہیں ٹھنڈی ہوئی آگ جہنم کی انگارے بھی گلزار ہوئے سب نخوتِ کسری خاک ہوئی، دیوار پھٹی، کنگرے بھی گرے باطل کا محل مسمار ہوا سرکار دو عالم آئے ہیں جبریل قصیدہ پڑھتے ہیں، مسرورِ نظامِ عالم ہیں ہیں نوحؑ کے لب پر نعت سجی، پُرکیف جنابِ آدمؑ ہیں نبیوں کا بھی بیڑا پار ہوا سرکار دو عالم آئے ہیں وہ نور جو قبلِ آدمؑ تھا، وہ نور جو قبلِ دنیا تھا وہ نور کہ جسکے صدقہ میں اللہ نے آدمؑ کو بخشا اُس سے روشن سنسار ہوا سرکارِ دو عالم آئے ہیں نسواں کا مقدر جاگ اٹھا، بیٹی رحمت کہلائے گی درگور نہ ہوگی اب زندہ، ہر ظلم سے راح...

آخری سلام

آخری سلام کہتے ہیں روکے اہلِ عزا آخری سلام اے ناصرانِ دینِ خدا آخری سلام زندہ رہے جو اگلے برس غم منائیں گے فرشِ عزا حسینؑ تمہارا بچھائیں گے ورنہ ہے شاہِ کرب و بلا آخری سلام روئے تمہارے غم میں سوا دو مہینے ہم آنکھیں رہیں ہماری صدا آنسوؤں سے نم پر حقِّ غم ادا نہ ہوا اخری سلام دل میں قلق ہے کھول کے دل ہم نہ رو سکے آنکھیں ہیں پُرملال و خجِل ہم نہ رو سکے کیسے کہیں امامؑ بھلا آخری سلام ہونے کو ہیں عزا کی سبھی رونقیں تمام یہ شبِّ داریاں یہ جلوسوں کا اہتمام ہوں گے اب اگلے سال بپا آخری سلام اکبرؑ پہ تیرے روئے مگر دل نہیں بھرا آنسو لہو کا آنکھ سے جاری نہیں ہوا ہمکو معاف کرنا شہا آخری سلام ایامِ غم تمام ہیں، آنکھیں ہیں اشکبار ہائے حسینؑ کہ کے تڑپتے ہیں سوگوار رو رو کے دے رہے ہیں صدا آخری سلام سوز و سلام و مرثیہ، نوحہ، صدائے غم جو اہتمام ہم نے کیے ہیں برائے غم کیجے قبول شاہ ھدا، آخری سلام ہر غم کا ہے علاج، دوائے غمِ حسینؑ کوئی بھی غم ملے نہ سوائے غمِ حسینؑ عارفؔ کے ہے لبوں پہ دعا آخری سلام عسکری عارفؔ