عباس قلبِ حضرتِ شبیر کا قرار
عباس جس کے دم سے وفاؤں کا ہے وقار
جس نے کیا قبائے تشدّد کو تار تار
کاٹے گلوئے ظلم کو جسکی نظر کی دھار
عباس زورِ دستِ خدا کا کمال ہے
عباس اس جہاں میں علی کی مثال ہے
عباس کائناتِ شجاعت کا احتشام
تھرائے جسکا نام ہی سنکر امیرِ شام
رکھتا ہے اپنے ہاتھوں میں جو موت کی لگام
بخشے جو زندگی کے سفینہ کو بھی دوام
ہوکر نجوم و شمش و قمر خاک گر پڑیں
رکھ دے قدم زمیں پہ تو افلاک گر پڑیں
عباس تشنگی کے سمندر کا نام ہے
عباس غیرتوں کے مقدر کا نام ہے
عباس ہی حسین کے لشکر کا نام ہے
عباس تو وفاؤں کے داور کا نام ہے
دشتِ عدم میں مرکزِ کلِّ حیات ہے
عباس کے کرم سے ہی باقی فرات ہے
بخشی ہے جسکی پیاس نے پانی کو زندگی
ملتی ہے بھیک جسکے وسیلے حیات کی
بالا ہے جس کے نام سے معیارِ تشنگی
جسکی وفا وفاؤں کی معراج بن گئی
حدِّ یقین نام پہ جس کے تمام ہے
عباس حق کے ایسے مجاہد کا نام ہے
ہیبت تھی وہ کہ خوف سے منہ کو جگر گئے
تیر و تبر خود اُنکے دلوں میں اتر گئے
دشمن تو دیکھتے ہی نگاہوں کو مر گئے
پتوں کی طرح شام کے لشکر بکھر گئے
رستم بھی کلمہ پڑھنے لگا اُس دلیر کا
وہ دبدبہ تھا نہر پہ حیدر کے شیر کا
ہے مطمئن یہ سوچ کے مشکل کشا کا لال
دیکھے نظر اٹھا کے مجھے؟ کسکی یہ مجال
آتا ہے ہمتوں کو ستمگار کی زوال
رہتے ہیں بس یہ سوچ کے دشمن شکستہ حال
پہرا لگا ہے فاطمہ زہرا کے چین کا
سویا ہوا ہے نہر پہ بھائی حسین کا