Tuesday, 23 April 2019

غزل

تازہ غزل

ہجر آباد کرکے روتے ہیں
خود کو برباد کرکے روتے ہیں

روز فریاد کرکے روتے ہیں
ہم تمہیں یاد کرکے روتے ہیں

ہنس کے کہتے ہیں داستاں اپنی
ختم روداد کرکے روتے ہیں

کیسے قیدی ہیں ہم کہ اہل جفا
ہم کو آزاد کر کے روتے ہیں

سخت ظالم ہیں آپ بھی عارف
خود پہ افتاد کر کے روتے ہیں
عسکری عارف

غزل

تازہ غزل

عشق کرنے کا یہ انجام بھی ہو سکتا ہے
اک بھلا  آدمی  بدنام  بھی  ہو سکتا ہے

چھین لیتا ہے سکوں عشق دوا ایسی ہے
زہر بن  جائے  تو  آرام  بھی ہو سکتا ہے

عشق چھپ چھپ کے کیا جائے یہی بہتر ہے
کھل  گیا  راز  تو  کہرام  بھی  ہو  سکتا ہے

یوں تو لاکھوں ہیں خریدار مگر تیرے لئے
دل مرا یوں ہی ترے  نام بھی ہو سکتا ہے

جس پہ تجھ کو ہے یقیں خود سے زیادہ مرے دوست
وہ سگِ بستیء اوہام بھی ہو سکتا ہے

بے سبب ملتا ہے اب کون کسی سے عارف
تجھ سے اسکو تو کوئی کام بھی ہو سکتا ہے

عسکری عارف

Saturday, 20 April 2019

دعا امام زمانہ

خدارا ختم  ہو  اب انتظار آ جاؤ
اے وارثِ شہ دل دل سوار آ جاؤ

بتائے جاتے  نہیں اب یہ  انتظار کے پل
گراں ہیں مجھ پہ یہ لیل و نہار آ جاؤ

خزاں کی نزر نہ ہو جائے گلشنِ امید
اے   گلستانِ  نبی   کی   بہار  آ جاؤ

گزر گئی ہیں تمہارے فراق میں صدیاں
ہے  بے   قرار   دلوں   کی   پکار  آ جاؤ

حسین والے ہیں اب بھی سناں کی نوکوں پر
یزیدیت   ہے    زمانے     پہ     بار  آ جاؤ

قصاصِ خونِ حسینِ غریب کی خاطر
ہے  سیفِ  شیر  خدا   بے  قرار  آ جاؤ

عسکری عارف

منقبت امام مہدی عجل تعال فرج

باسمہ سبحانہ

طرح- *زمانے کے محمد تیرا جلوہ ہم بھی دیکھیں گے*

شبابِ حضرتِ شاہِ مدینہ ہم بھی دیکھیں گے
امامِ عصر کا پُرنور چہرہ ہم بھی دیکھیں گے

ادا ہوگی نماز اپنی امامِ وقت کے پیچھے
زمینِ آب پر اُن کا مصلّہ ہم بھی دیکھیں گے

پھٹے گی پھر سے دیوارِ حرم قائم کی آمد پر
جدارِ خانہء کعبہ کو ہنستا ہم بھی دیکھیں گے

جلے گا تیغِ حیدر کی تپش میں دشمنِ زہرا
زوالِ قوّتِ آلِ امیہ ہم بھی دیکھیں گے

*علم کاندھے پہ غازی کا، علی کی تیغ ہاتھوں میں*
*زمانے کے محمد تیرا جلوہ ہم بھی دیکھیں گے*

علی کے شیر کی ہیبت نظر آئے گی مقتل میں
یزیدی فوج پر غازی کا حملہ ہم بھی دیکھیں گے

کسی کے جسم پر جکڑی ہوئی زنجیر کا بدلا
کسی کے ہاتھ میں رسّی کا بدلا ہم بھی دیکھیں گے

ہیں جسکے نور سے روشن ستارے چاند اور سورج
اُسی شمعِ ھدایت کا اجالا ہم بھی دیکھیں گے

چھٹے گی رات باطل کی، سحر ہوگی عدالت کی
جبینِ عرشِ ایماں پر سویرا ہم بھی دیکھیں گے

ہے دل میں حسرتِ دیدارِ مولائے زمن *عارف*
یقیں ہے ایک دن قائم کا چہرہ ہم بھی دیکھیں گے

سید محمد عسکری *عارف* اکبرپوری

Wednesday, 10 April 2019

مسدس مولا عباس


مسدّس مولا عباس کی شان میں---

لشکرِ شاہِ شہیداں کا علمدار ہوں میں
کاروانِ شہِ مظلوم کا سردار ہوں میں
ثانیء شیرِ خدا، دین کی دیوار ہوں میں
جسکی تمثیل نہیں ہے وہ وفادار ہوں میں
پیاس پانی کی بجھائے جو وہی پیاس ہوں میں
میں تمنائے علی ہوں سخی عباس ہوں میں.

اپنی پہچان زمانے کو عیاں کرتا ہوں.
آج میں اپنی حقیقت بھی بیاں کرتا ہوں.
میں تو باطل کے ارادوں کو دھواں کرتا ہوں.
اپنی نظروں سے جدا جسم سے جاں کرتا ہوں
کربلا میں نہیں تلوار چلائ میں نے.
اپنی ہیبت سے ہی جیتی ہے ترائ میں نے.

ہم اگر آئںگے میدان میں شیروں کی طرح.
سر نظر آئںگے اڑتے ہوئے پتوں کی طرح.
تن بکھر جائںگے اورآق کے ٹکڑوں کی طرح.
خونِ رگ برسےگا طوفان کے دھاروں کی طرح.
نہر ہوگی نہ کوئ جنگ کا منظر ہوگا.
دشتِ کربل تو فقط خوں کا سمندر ہوگا.

میں اگر چاہوں تو چلّو میں سما لوں دریا.
یہ زمیں کیا ہے ستاروں سے نکالوں دریا.
زور سے اپنی نگاہوں کے اٹھا لوں دریا.
کاٹ کے تیغ سے خیمے میں بہا لوں دریا.
تاقیامت در و دیوار سے پانی نکلے.
مرے اک اِذن پے سنسار سے پانی نکلے.

ساری دنیا میں ہے مشہور سخاوت میری.
دِل ہلاتی ہے لعینوں کا شجاعت میری.
آسماں لرزاں ہے سن سن کے خطابت میری.
خاک کر دیتی ہے بجلی کو جلالت میری.
چاند شرماتا ہے چہرے کی چمک سے میری.
یہ زمیں ہلتی ہے پیروں کی دھمک سے میری.

مرضیء حضرتِ شبیر اگر پا جاؤں.
جانبِ نہر کو بس کچھ ہی پلو میں جاؤں.
دشمنِ دیں پہ گھٹا موت کی میں برساؤں.
فوجِ اعدا کو قیامت کا سماں دکھلاؤں.
لشکرِ شام کو میں موت نظر آؤںگا.
بھر کے مشکیزے میں دریا کو اٹھا لاؤںگا.

کربلا میں نظر آیا مری ہیبت کا اثر.
مری آمد سے ہی لرزاں تھے سبھی بانیء شر.
پاؤں رکھتے تھے اِدھر خوف سے پڑتا تھا اُدھر.
ٹوٹے نیزے نے اڑا ڈالے جفاکاروں کے سر.
میرے اک وار سے میداں میں تباہی آئ.
ٹوٹے نیزے سے ہی مقتل میں قیامت چھائ.

قدمِ شبیر کی مٹی سے محبت ہے مجھے.
حکمِ آقا پہ عمل کرنے کی عادت ہے مجھے.
خدمتِ شاہ سے اک پل کہاں فرصت ہے مجھے.
اس قدر سیدِ ابرار سے قربت ہے مجھے.
اپنے آقا پہ دل و جان سے قربان ہوں میں.
حشر تک سبطِ پیمبر کا نگہبان
ہوں میں.

پرچموں کا جو ہے سلطان، علم میرا ہے.
دینِ احمد کا نگہبان، علم میرا ہے.
اہلِ ایمان کی پہچان،علم میرا ہے.
ذیشرف بالا و ذیشان، علم میرا ہے.
جب فضا میں یہ علم شان سے لہراتا ہے.
عرش سے چومنے جبریل چلا آتا ہے.

محمد عسکری عارف---------

خراج تحسین حسن نصراللہ

خراجِ تحسین شہیدِ مقاومت آیت اللہ سید حسن نصراللہؒ مردِ حق، سید و سردار حسن نصراللہؒ بے سہاروں کے  مددگار حسن نصراللہؒ فوجِ  ایماں کے علمدار...