*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
*نوخہ*
*سکینہ ع. نے وصیت میں کہا عابد ع. مرے بھیا*
*جلے کُرتے میں دفنانا مرا زخموں بھرا لاشہ*
*یزیدِ نحس کا بھیجا کفن ہرگز نہیں لینا*
*جلے کُرتے میں دفنانا مرا زخموں بھرا لاشہ*
*کہ مجھ پر پیاس کی شدت ہوئی ہے اِسقدر طاری*
*مرے بھائی چٹختی ہیں بدن کی ہڈیاں ساری*
*مری تقدیر میں لکھی ہوئی ہے گریہ و زاری*
*یہ لگتا ہے کہ اب زندہ نہیں رہ پائے گی بہنا*
*بدن پر آج بھی لپٹا پرانا پیرہن دیکھو*
*یہ چہرہ نیلگوں دیکھو، مرا زخمی بدن دیکھو*
*مری اِن خُشک آنکھوں میں قیامت کی تھکن دیکھو*
*اجل سے رہ گیا ہے کچھ دونوں کا فاصلہ میرا*
*بڑے ہی پیار سے اماں نے میری مجھکو پالا تھا*
*چچا عباس ع. نے آغوش میں اپنی کھِلایا تھا*
*مرے دم سے مرے گھر میں خوشی کا بول بالا تھا*
*مگر افسوس اب وہ دن نہیں آئیں گے دوبارہ*
*مرے بیمار تم سے دست بستہ یہ بھی کہنا ہے*
*اثر سے تشنگی کے، میرا سارا جسم سوکھا ہے*
*بدن کا گوشت بھی اس واسطے ہڈی سے چِپکا ہے*
*زمیں ہو نم جہاں، تربت وہیں پر میری بنوانا*
*اندھیروں سے بہت وحشت مجھے ہوتی ہے اے بھائی*
*کبھی تاریکیوں میں نیند بھی مجھکو نہیں آئی*
*جو اِس تاریکیء زندان میں مر جائے ماں دکھپائی*
*مری تربت پہ روشن اک دیا ہر شام کر دینا*
*پھوپھی اماں کو، ماؤں کو دلاسہ آپ دے دینا*
*مرے باقر ع. بھتیجے کو کلیجے سے لگا لینا*
*کسی کو بھی مری رحلت کا صدمہ ہونے مت دینا*
*مرے غم کو دلوں ضبط کرنا اور بھُلا دینا*
*بدن میں ضعف ہے ایسا کہ خود سے اٹھ نہ پاتے ہو*
*بڑی مشکل سے قدموں کو ذرا آگے بڑھاتے ہو*
*علالت کے سبب چلتے ہوئے تم لڑکھڑاتے ہو*
*پھر ایسے حال میں کیونکر اٹھاؤگے مرا لاشہ*
*سکینہ ص. کی وصیت سُن کے عابد ع. پھوٹ کر روئے*
*دہاڑیں مار کر زین العبا ع. خستہ جگر روئے*
*نہ رونا چاہتے تھے عابدِ مضطر ع. مگر روئے*
*پھٹا جاتا تھا غم سے سید سجاد ع. کا سینہ*
*پھر اک شب وہ گھڑی بھی شام کے زندان میں آئی*
*پدر کے سر کو لپٹائے سکینہ ع. نے قضا پائی*
*اُسی کُرتے میں بھائی نے بہن کی لاش دفنائی*
*نہ پھر آیا لبوں پر عسکری معصومہ کے نوحہ*
*محمد عسکری عارف*
*بتاریخ 22/04/2020
بروز بدھ*
بوقت 00:30
برائے انجمن برقِ حیدری سنجھولی اکبرپور