Saturday, 4 September 2021

سکینہ ‏نے ‏وصیت ‏میں ‏کہا ‏عابد ‏مرے ‏بھیا

*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
*نوخہ*

*سکینہ ع. نے وصیت میں کہا عابد ع. مرے بھیا*
*جلے کُرتے میں دفنانا مرا زخموں بھرا لاشہ*

*یزیدِ نحس کا بھیجا کفن ہرگز نہیں لینا*
*جلے کُرتے میں دفنانا مرا زخموں بھرا لاشہ*

*کہ مجھ پر پیاس کی شدت ہوئی ہے اِسقدر طاری*
*مرے بھائی چٹختی ہیں بدن کی ہڈیاں ساری*
*مری تقدیر میں لکھی ہوئی ہے گریہ و زاری*
*یہ لگتا ہے کہ اب زندہ نہیں رہ پائے گی بہنا*

*بدن پر آج بھی لپٹا پرانا پیرہن دیکھو*
*یہ چہرہ نیلگوں دیکھو، مرا زخمی بدن دیکھو*
*مری اِن خُشک آنکھوں میں قیامت کی تھکن دیکھو*
*اجل سے رہ گیا ہے کچھ دونوں کا فاصلہ میرا*

*بڑے ہی پیار سے اماں نے میری مجھکو پالا تھا*
*چچا عباس ع. نے آغوش میں اپنی کھِلایا تھا*
*مرے دم سے مرے گھر میں خوشی کا بول بالا تھا*
*مگر افسوس اب وہ دن نہیں آئیں گے دوبارہ*

*مرے بیمار تم سے دست بستہ یہ بھی کہنا ہے*
*اثر سے تشنگی کے، میرا سارا جسم سوکھا ہے*
*بدن کا گوشت بھی اس واسطے ہڈی سے چِپکا ہے*
*زمیں ہو نم جہاں، تربت وہیں پر میری بنوانا*

*اندھیروں سے بہت وحشت مجھے ہوتی ہے اے بھائی*
*کبھی تاریکیوں میں نیند بھی مجھکو نہیں آئی*
*جو اِس تاریکیء زندان میں مر جائے ماں دکھپائی*
*مری تربت پہ روشن اک دیا ہر شام کر دینا*

*پھوپھی اماں کو، ماؤں کو دلاسہ آپ دے دینا*
*مرے باقر ع. بھتیجے کو کلیجے سے لگا لینا*
*کسی کو بھی مری رحلت کا صدمہ ہونے مت دینا*
*مرے غم کو دلوں ضبط کرنا اور بھُلا دینا*

*بدن میں ضعف ہے ایسا کہ خود سے اٹھ نہ پاتے ہو*
*بڑی مشکل سے قدموں کو ذرا آگے بڑھاتے ہو*
*علالت کے سبب چلتے ہوئے تم لڑکھڑاتے ہو*
*پھر ایسے حال میں کیونکر اٹھاؤگے مرا لاشہ*

*سکینہ ص. کی وصیت سُن کے عابد ع. پھوٹ کر روئے*
*دہاڑیں مار کر زین العبا ع. خستہ جگر روئے*
*نہ رونا چاہتے تھے عابدِ مضطر ع. مگر روئے*
*پھٹا جاتا تھا غم سے سید سجاد ع. کا سینہ*

*پھر اک شب وہ گھڑی بھی شام کے زندان میں آئی*
*پدر کے سر کو لپٹائے سکینہ ع. نے قضا پائی*
*اُسی کُرتے میں بھائی نے بہن کی لاش دفنائی*
*نہ پھر آیا لبوں پر عسکری معصومہ کے نوحہ*
*محمد عسکری عارف*
 *بتاریخ 22/04/2020
بروز بدھ*
بوقت 00:30
برائے انجمن برقِ حیدری سنجھولی اکبرپور

نوحہ ‏حضرت ‏علی ‏اصغر

نوحہ
کرب و بلا میں کیسی ستم کی ہے انتہا
تیرِ ستم سے چھیدا گلا شیر خوار کا

پانی کا جب کہ اہل جفا سے کیا سوال
آیا ہے پھر جوابِ  ستم  تیر  تین بھال
ہاتھوں پہ اپنے باپ کے بچہ  الٹ  گیا

چلو  میں  بھر  کے  خون  شہِ مشرقین نے
رخ کرکے پھر زمین کی جانب حسین نے
بولے قبول کر تو اِسے ارضِ کربلا

آئی  صدا  زمین سے  اے ابنِ فاطمہ
آیا جو ایک قطرہ بھی مجھ تک تو باخدا
تاحشر ایک دانہ نہ روئیدہ ہوئے گا

پھر سوچا شہ نے پھینکے لہو جانبِ فلک
آئی صدا فلک سے جو خوں آیا مجھ تلک
بروسں گا تاابد نہ میں اک قطرہ آب کا

راضی ہوئے نہ خون پہ جب آسماں زمیں
چہرے پہ مل کے خون کو پھر بولے شاہِ دیں
خالق قبول کریو یہ سدقہ حسین کا

دامن میں لیکے لاشِ پسر پھر فلک جناب
پہنچے ہیں جب قریبِ درِ خیمہء رباب
سر کو جھکائے روتے تھے سلطانِ کربلا

خیمے کے در سے بانو کو آواز شہ نے دی
بانو سے پہلے بالی سکینہ نکل پڑی
بولی کہ پانی کیا مرے بھیا کو مل گیا

دامن عبا  کا  شاہ نے جس دم الٹ دیا
اک چیخ  ماری  اور  یہ بانو  نے  دی صدا
پانی  کے  بدلے  نہر   ہوا  میرا  لاڈلا

ہاتھوں سے اپنے دشت میں عالی مقام نے
چھوٹی سی  ایک  قبر  بنائی  امام نے
آنکھوں سے بہتی جاتی تھی اشکوں کی علقمہ

اصغر  کو  دفن  کر چکے جب شاہِ بحر و بر
پانی نہ تھا چھڑکتے جو مولا مزار پر
روئے لپٹ کے قبر سے پھر شاہِ کربلا

*عارف* قلم کو روک لے پھٹنے لگا جگر
*عمران* رو رہے ہیں عزادار پھوٹ کر
آگے نہ ہو سکے گا بیاں شہ کا مرثیہ
*عسکری عارف*

خدا ‏خیر ‏کرے


باسمہ تعالٰی
تازیانوں کی ہے بوچھار خدا خیر کرے
مر نہ جائے کہیں بیمار خدا خیر کرے

ایک بیمار جو قیدی ہے برہنہ پا بھی
اور اُس پر رہِ پر خار خدا خیر کرے
 
پھٹ نہ جائے کہیں غیرت سے زمیں کا سینہ
آ گیا شام کا بازار خدا خیر کرے

ہائے قیدی ہیں حرم، سر پہ ردائیں بھی نہیں
اور ہے مجمعء اغیار خدا خیر کرے

سر کھلے زینب و کلثوم ہیں بازاروں میں
یہ قیامت کے ہیں آثار خدا خیر کرے

نوکِ نیزہ سے بھی، غیرت کا بھرم رکھنے کو
گر گیا فرقِ علمدار خدا خیر کرے

گر گئی پشتِ شتر سے کہیں بنتِ شبیر
تھم گئی وقت کی رفتار خدا خیر کرے

دم بھی لینے نہیں پاتی ہے سکینہ بیبی
اک نیا ظلم ہے ہر بار خدا خیر کرے

کٹ گئے ہاتھ چھدی مشک لبِ نہرِ فرات
گر گیا شہ کا علمدار خدا خیر کرے

سن کے بیٹے کی صدا جانبِ مقتل ہیں چلے
گرتے پڑتے شہ ابرار خدا خیر کرے

زینِ آغوشِ امامت پہ سوار ہوکے صغیر
چل پڑا بر سرِ پیکار خدا خیر کرے

ہر طرف تیز ہے بیداد کی آندھی *عارف*
مشکلوں میں ہیں عزادار خدا خیر کرے

عسکری *عارف*

روتا ‏ہے ‏ایک ‏بھائی ‏زندان ‏ ‏شام ‏میں


روتا ہے ایک  بھائی  زندانِ شام میں 
خواہر کو موت آئی زندان شام میں

بابا کے سر سے لپٹی روتی رہیں سکینہ
ہچکی قضا کی آئی زندانِ شام میں

زینب یہ کہ رہی ہیں تم مر گئی سکینہ
ہم کو نہ موت آئی زندانِ شام میں

کیا کیا نہ دکھ اٹھاے چھوٹے سے سن میں بیبی
فرصت غمو سے پائی زندانِ شام میں

ہاتھوں میں کپکپی ہے کیسے اٹھے جنازہ
قیدی بنا ہے بھائی زندانِ شام میں

بانو تڑپ تڑپ کے فریاد کر رہی ہے
میری لٹی کمائی زندانِ شام میں

بعدِ حسین جسکے سونے پہ سختیاں تھیں
اب اسکو نیند آئی زندانِ شام میں

جکڑے تھے ہتھکڑی میں عابد کے دونو بازو
کیسے لحد بنائی زندانِ شام میں

اٹھتا تھا شورِ ماتم لو الوداع سکینہ
تم سے ہوئی جدائی زندانِ شام میں

ڈرتی تھی دیکھکر جو تاریک قید خانہ
ہے ہے وہ جی نہ پائی زندانِ شام میں

اک حشر سا بپا تھا اہلحرم میں عارف
بدلی غموں کی چھائی زندانِ شام میں
عسکری عارف

زندان ‏ ‏میں ‏شبیر ‏کی ‏دختر ‏کا ‏جنازہ

نوحہ
زندان میں شبیر کی دختر کا جنازہ
سجاد کے ہاتھوں پہ ہے خواہر کا جنازہ

زنجیر سنبھالے ہوے بیمار اٹھا ہے
ہے پیروں میں لرزش تو بدن کانپ رہا ہے
دفنانا ہے مظلومہء سرور کا جنازہ.

زینب سے چھٹی قید میں بھیا کی امانت
ہر غم میں جو ہمدم تھی وہی ہو گئ رخصت
روتی ہے پھوپھی دیکھکے مضطر کا جنازہ.

ہیں رخ پہ طمانچو کے نشاں پشت ہے زخمی
اک ننہی سی میت ہے جلے کرتے میں لپٹی
غربت میں گرفتاں ہے گلِ تر کا جنازہ

زندانِ ستم میں یہ قیامت کا سماں ہے
ہر قیدی کے ہونٹوں فقط آہ و فغاں ہے
اٹھتا ہے سکونِ دلِ سرور کا جنازہ

بابا سے چلی ملنے کو بابا کی دلاری
اشکوں کی لڑی آنکھوں سے عابد کے ہے جاری
ہے سامنے معصومہء بے پر کا جنازہ

جب شمر نے معصومہ کو مارے ہیں طمانچے
اور چھینے ہیں کانوں سے دلفگار کے بندے
تھرّا گیا عباسِ دلاور کا جنازہ

ہے ماں کی نظر میں ابھی بےشیر کی میت
اب چھینی خدا نے دلِ مجروح کی راحت
اجڑی ہوئی بانو کے مقدر کا جنازہ

دل سوچ کے ہر وقت لہو روتا ہے عارف
سینے میں کلیجہ بھی دھواں ہوتا ہے عارف
اٹھا ہی نہیں رن سے بہتّر کا جنازہ.

عسکری عارف

थी सर बरहना इ़तरते अतहार शाम तक।

थी सर बरहना इ़तरते अतहार शाम तक
कैसे गए  हैं आबिदे  बीमार  शाम  तक।

हर  गाम  थीं  अज़ीयतें  बीमार   पर   मगर
बातिल से हर मक़ाम था इन्कार शाम तक।

बादे   हुसैन   सैय्यदे   सज्जाद  ज़ुल्म   से
हर इक क़दम थे बरसरे पैकार शाम तक।

ग़ैरत से अपने  सर  को  झुका लेते थे इमाम
आया सफ़र में जब कोई बाज़ार शाम तक।

ज़जीर,   तौक़,  हथकड़ी,  बेड़ी   बदन  पे   था
आबिद थे फिर भी काफ़ेला सालार शाम तक।

यूं   मारे  ज़ालिमों  ने   तमाचे   न   पूछिए
ज़ख़्मी हुए सकीना के रुख़्सार शाम तक।

इक दोपहर  में  क़त्ल  हुआ  लश्करे  हुसैन
और लुट गया बतूल का घरबार शाम तक।

आबिद ने वो  जेहाद भी तस्ख़ीर कर लिया
जिसमें हर एक सांस थी दुश्वार शाम तक।

इक दो नहीं  इमाम ने 'आरिफ़' हज़ार बार
ख़ुद को किया है दीन पे ईसार शाम तक।
असकरी आ़रिफ़

خراج تحسین حسن نصراللہ

خراجِ تحسین شہیدِ مقاومت آیت اللہ سید حسن نصراللہؒ مردِ حق، سید و سردار حسن نصراللہؒ بے سہاروں کے  مددگار حسن نصراللہؒ فوجِ  ایماں کے علمدار...