Posts

Showing posts from July, 2025

بلوے میں بہن ہے بے چادر نوحہ

بلوے میں بہن ہے بے چادر روتا ہے سناں پہ شاہ کا سر بازار سے ہے زینب کا گزر روتا ہے سناں پہ شاہ کا سر بالوں سے کیے رخ کا پردہ، اغیار میں ہے بنتِ زہرا اے کاش کوئی دے دے چادر روتا ہے سناں پہ شاہ کا سر بلوے میں بہن ہے بے چادر روتا ہے سناں پہ شاہ کا سر باغی کی بہن کہتے ہیں لعیں، سیدانیوں پر ہنستے ہیں لعیں دیکھیں یہ سماں عابد کیوں کر روتا ہے سناں پہ۔۔۔۔ خوں بار ہیں آنکھیں عابد کی، بازار میں بے مقنع ہے پھوپھی پھوپھیوں سے ملائیں کیسے نظر روتا ہے سناں پہ۔۔۔۔ اکبر بھی نہیں عباس نہیں، پردے کے محافظ پاس نہیں ہر سمت سے آتے ہیں پتھر روتا ہے سناں پہ شاہ کا سر جکڑے ہیں رسن میں اہلحرم، اللہ رے یہ کیسا ہے ستم دو گام بھی چلنا ہے دوبھر روتا ہے سناں پہ شاہ کا سر کس طرح قدم آگے کو بڑھے، ہر سمت تماشائی ہیں کھڑے چلنے کی نہیں ہے راہ گزر روتا ہے سناں پہ شاہ کا سر دربار میں کیوں کر جائے بہن، احساس سے نہ مر جائے بہن ہائے یہ قیامت کا منظر روتا ہے سناں پہ شاہ کا سر کچھ دور پہ ہے دربار مگر، لگتا ہے کہ ہے میلوں کا سفر ہر سمت کھڑے ہیں بانی شر روتا ہے سناں پہ شاہ کا سر دربار میں آئے جب قیدی، تھے بارہ گلے اور اک رسی عارف...

نوحہ ہاتھ میں لے کر جنازہ اصغر بے شیر کا

ہاتھ میں لے کر جنازہ اصغرِ بے شیر کا کھودتے ہیں ننہی تربت اور روتے ہیں حسینؑ کہتے ہیں کس جرم میں بیٹا تجھے مارا گیا کھودتے ہیں ننہی تربت اور روتے ہیں حسینؑ کتنا پیاسا ہے زمانے کو دکھانے کے لیے میں تو آیا تھا تجھے پانی پلانے کے لیے پانی کے بدلے ترا چھیدا گیا سوکھا گلا چل رہا ہے غم کا خنجر سینہء صد چاک میں چاند سی صورت تری کیسے چھپاؤں خاک میں چھ مہینے میں ہوا تو ہائے بابا سے جدا اے مرے نورِ نظر ہے کس قدر مظلوم تو اپنے منہ سے تونے اُگلا دودھ کے بدلے لہو جسم کا سارا لہو گردن سے تیری بہ گیا رکھ چکے جب قبر میں بے شیر کی میت حسین یاس سے تکتے رہے اصغر کو شاہِ مشرقین اشک تھے مولا کی آنکھوں سے رواں بے ساختہ ڈالتے تھے دھیرے دھیرے خاک میت پر امام چھپ گیا بے شیر کا جب جسم مٹی میں تمام قبر سے لپٹے ہوئے روتے تھے شاہِ کربلا پاس مولا کے چھڑکنے کے لیے پانی نہ تھا قبر کو اشکوں سے تر کرتا تھا ابنِ فاطمہ ہائے اصغر دم بدم ہونٹوں پہ تھی شہ کے صدا ہو رقم کیسے بھلا عارفؔ وہ منظر جس گھڑی قبرِ اصغرؑ سے ہوئے رخصت حسین ابن علی لڑکھڑاتے تھے قدم چلنے کا بھی یارا نہ تھا عسکری عارفؔ

نوحہ سجاد سے رو رو کے یہ کہتی تھیں سکینہ

سجاد سے رو رو کے یہ کہتی تھی سکینہ بھیا مجھے ظالم کے طمانچوں سے بچا لو میں آہ بھی کرتی ہوں تو لگتا ہے طمانچہ بھیا مجھے ظالم کے طمانچوں۔۔ اِس عالمِ غربت میں کروں کس سے میں شکوہ بے یار و مددگار ہوں پردیس میں تنہا ہر  گام  مجھے  یاد  بہت  آتے ہیں بابا عباس چچا کی بھی جدائی کا ہے صدمہ تم جکڑے ہو زنجیروں میں پیارے مرے بھیا عاشور سے اک پل بھی نہیں مجھکو اماں ہے زخمی مرے کانوں سے ابھی خون رواں ہے اور پیاس کی شدت سے مری خشک زباں ہے چہرے پہ ستمگار کی انگلی کا نشاں ہے دل کرتا ہے جب مجھ پہ ستم ڈھاتے ہیں اعدا بھیا مجھے ظالم کے طمانچوں۔۔ جب سامنے  آتا ہے مرے شمرِ ستمگر دل میرا لرزتا ہے مرے سینے کے اندر تھراتا ہے سب جسم، تڑپ جاتی ہوں ڈرکر چھپ جاتی ہوں میں آپ کے پیچھے اے برادر پر شمر کے آگے مرا کچھ بس نہیں چلتا کس موڑ  پہ تقدیر  مجھے لائی ہے بھائی خواہر تری مجبور ہے دکھ پائی ہے بھائی یہ حالِ  اسیری  بڑا  دکھدائی  ہے  بھائی اب زندگی بس رنج ہے رسوائی ہے بھائی اے کاش کہ مر جائے سفر میں تری بہنا عباس کی گودی میں پلی تھی جو سکینہ گلزارِ امامت...

آتی تھیں یاد جب بھی اسیری کی سختیاں

آتی تھیں یاد جب بھی اسیری کی سختیاں الشام کہ کے روتے تھے سجادِ ناتواں بعدِ  حسین  ڈھائے  گیے ظلم بے شمار مل پایا ایک پل بھی نہ بیمار کو قرار تھیں بے کجواوہ اونٹوں پہ سیدانیاں سوار بے پردہ تھیں رسولِ خدا کی نواسیاں الشام کہ کے روتے تھے۔۔۔۔۔۔ بے   پردہ   اہلبیتِ  محمدؐ  کا  کارواں زنجیر و طوق میں تھا گرفتار ناتواں ہاتو میں ہتکڑی تھی تو پیروں میں بیڑیاں سر تھے جھکائے شرم سے سجادِ خستہ جاں وہ شامیوں کی بھیڑ وہ ناموسِ مصطفٰی رسی میں ہاتھ جکڑے تھے، سب کا تھا سر کھلا رہ رہ کے گونجتی تھی منادی کی یہ صدا آکر تماشہ دیکھ لو سادات کا یہاں الشام کہ کے روتے تھے سجاد ناتواں چوراہے پر رکا تھا اسیروں کا کارواں بازار میں تھیں چارو طرف شیشہ بندیاں بالوں سے اپنے منہ کو چھپائے تھیں بیبیاں خنجر تھا قلبِ سید سجاد پر رواں پھٹتے تھے کان شور تھا ایسا ہجوم کا بازار شام میں تھا وہ ماحول دھوم کا مجمع تھا چار سمت فقط اہل شوم کا پہروں کھڑی تھیں فاطمہ زہرا کی بیٹیاں بازار سے  تھا کچھ ہی قدم قصر شام کا چھتیس گھنٹے پھر بھی لگے وا مصیبتا ہر  اک  قدم  ت...