Sunday, 24 December 2017

غزل

تازہ غزل آدمی

دنیا  و  مال و زر  کا پرستار آدمی
رہتا ہے مشکلوں میں گرفتار آدمی

جسکو بھی دیکھئے ہے وہ مکار آدمی
کیا مٹ چکے ہیں صاحبِ کردار آدمی

ہوتی نہیں ہے جسکو میسر غزائے روح
ہوتا ہے اصل میں وہی بیمار آدمی

باقی کسی میں ضبط کی قوت نہیں رہی
کھینچے ہے بات بات پہ تلوار آدمی

کرتا ہے جھوٹ بات بڑے شوق سے مگر
سچ بولنے سے کرتا ہے انکار آدمی

حاکم بہت سے ملک میں میرے ہوئے مگر
کوئی ہوا نہ تم سا کلاکار آدمی

یوں تو ہمارا حلقہء احباب تھا وسیع
پھر کیوں مدد کو آئے فقط چار آدمی

مجرم قرار پائی عدالت غریب کو
عزت سے پھر بری ہوا زردار آدمی

پھیلاؤ ہاتھ صرف خدا کے حضور میں
بننا ہے گر زمانے میں خدار آدمی

ادنی سا ہے یہ اپنا تعارف اے *عسکری*
میں اک حقیر عبد، گنہگار آدمی

عسکری *عارف*

Wednesday, 13 December 2017

غزل

غزل

کوئی ہمدم نہ کوئی یار نہ شیدائی ہے
حوصلہ دینے کو باقی مری تنہائی ہے

اِن دنوں گھر سے نکلتے ہوئے گھبراتا ہوں
ملک میں میرے تنفر کی گھٹا چھائی ہے

وہ سرِ عام مجھے جھوٹا بتاتا ہے مگر
ہے خبر اسکو مری بات میں سچائی ہے

نوکِ نیزہ کی بلندی بھی گوارہ ہے مجھے
سر جھکا لینے میں شامل مری رسوائی ہے

ایک مدت میں رہا جھوٹوں میں مکاروں میں
تب کہیں جاکے سیاست کی کلا آئی ہے

کیا کبھی چومے گا یہ آسماں قدموں کو مِرے
یا کہ لکھی مری تقدیر میں پسپائی ہے

جینا مشکل ہوا اس دور میں انساں کے لئے
جس طرف دیکھو وہاں معرکہ آرائی ہے

زندگی ایسا ہے اسٹیج کہ جس پر *عارف*
آدمی خود ہی تماشہ ہے، تماشائی ہے
عسکری عارف

Sunday, 10 December 2017

نعت

باسمہ تعالٰی
نعت

امیر المومنیں کے قائد و سردار کیا ہوں گے
*علی جنکے غلاموں میں ہیں وہ سرکار کیا ہوں گے*

کمالِ حسنِ یوسف پر زلیخا مر مٹی تھی تو
جمالِ فخرِ یوسف پر ترے آثار کیا ہوں گے

مجھے تو خاکِ پائے احمدِ مرسل سے نسبت ہے
مری خاطر بھلا یہ درہم و دینار کیا ہوں گے

اکیلے نور سے ہی جسکے سورج ماند پڑ جائے
ردائے انّما میں پانچ وہ انوار کیا ہوں گے

ہے خاکِ کربلا اِنکے لئے ہر مرض کا نسخہ
عزادارانِ شاہِ کربلا بیمار کیا ہوں گے

بغیرِ وحیء خالق جسکے لب حرکت نہ کرتے ہوں
خدا جانے پھر اُسکی فکر کے معیار کیا ہوں گے

اگر ہوں ساتھ میں سایہ کی طرح حیدرِ کرّار
برائے خدمتِ سرکار پھر فرّار کیا ہوں گے

خدا جسکا ثناگر ہو سرِ عرشِ عُلی *عارف*
تو پھر مدحت میں اُسکی یہ ترے اشعار کیا ہوں گے

عسکری *عارف*

Tuesday, 5 December 2017

نعت

باسمہ تعالٰی

دنیائے مودّت کی ہر حد سے گزر جانا
ہے زیست محمّد کے کردار پہ مر جانا

عاشق ہیں محمّد کے، ہم بات کے پکّے ہیں
سیکھا ہی نہیں ہم نے وعدوں سے مکر جانا

اے کاش کہ مل جاؤں میں خاکِ مدینہ میں
مجھکو ہے طلب اُنکی گلیوں میں بکھر جانا

سورج سے ستاروں سے دریاؤں، فضاؤں سے
ہم نے اے نبی تمکو تاحدِّ نظر جانا

جب دستِ مبارک پر گویا ہوئے سنگریزے
تب عشقِ محمّد کا دنیا نے اثر جانا

ہاں وعدہء طفلی کی بنیاد محمّد ہیں
تعمیلِ رسالت ہے نیزے پہ بھی سر جانا

اُسکو ہی میسّر ہے مرضیء خداوندی
احمد کی محبت کا جس نے بھی ہنر جانا

تلواروں میں سو جانا حیدر کا بتاتا ہے
*جینے کی علامت ہے سرکار پہ مر جانا*

اک بار سفینہ پر لکھ نام محمّد کا
طوفاں سے بہ آسانی پھر ہوکے گزر جانا

اظہارِ مودّت کا اک یہ بھی طریقہ ہے
جاں قلب و جگر اُنکی دہلیز پہ دھر جانا

حالات کا مارا ہوں روضہ پہ بلا لیجئے
کب میرا زمانے نے ہے دردِ جگر جانا

جل جائیں گے بال و پر، آگے نہ قدم رکھنا
تم منزلِ سدرہ پر جبریل ٹھہر جانا

جو دشمنِ احمد ہے، انساں نہیں ہو سکتا
احمد سے عداوت ہے احساس کا مر جانا

اعجاز سوا اِس سے اب ہو ہی نہیں سکتا
قرآں کا دلِ ختمِ مرسل پہ اُتر جانا

بن حبِّ نبی بےجا ہر ایک عبادت ہے
اک سیر سپاٹا ہے اللہ کے گھر جانا

وہ ہیرے جواہر کو بس دھول سمجھتا ہے
جس نے کفِ احمد کے ذرّوں کو گہر جانا

اطرافِ محمد میں کچھ سورما ایسے تھے
جن لوگوں نے میداں میں جانا تو مفر جانا

سرکار کی الفت نے کیا عزم دیا *عارف*
قطرہ تھا مگر مجھکو دنیا نے بھنور جانا

عسکری *عارف*

خراج تحسین حسن نصراللہ

خراجِ تحسین شہیدِ مقاومت آیت اللہ سید حسن نصراللہؒ مردِ حق، سید و سردار حسن نصراللہؒ بے سہاروں کے  مددگار حسن نصراللہؒ فوجِ  ایماں کے علمدار...