Wednesday, 18 April 2018

قصیدہ

کیا بتاؤں میں کیا حسین سے ہے
سید الانبیا حسین سے ہے

جس نے بخشی ہے زندگی حق کو
ہاں وہی کربلا حسین سے ہے

جس سے ملتی ہے موت کو بھی حیات
ہاں وہ خاک شفا حسین سے ہے

عشق کی ابتدا تھی آدم سے
عشق کی انتہا حسین سے ہے

ناخدائے سفینہ ہائے نجات
خلد کا راستہ حسین سے ہے

مرکزِ انقلاب ذاتِ حسین
حریت کی بقا حسین سے ہے

جو بھی چاہو وہ مانگ لو آکر
درِ امید وا حسین سے ہے

چاند سورج یہ کہکشاں تارے
روشنی جابجا حسین سے ہے

کچھ بھی ہو جائے رد نہیں ہوگی
میں نے مانگی دعا حسین سے ہے

حق شناسی اُسے نہیں حاصل
جو نہیں آشنا حسین سے ہے

مری خوشیاں بھی ہیں حسین حسین
درد و غم کی دوا حسین سے ہے

ہر صدی میں ہر اک زمانے میں
ظلم کا خاتمہ حسین سے ہے

ساری دنیا کے حق پرستوں کا
عزم فولاد سا حسین سے ہے

بخدا کوئی کر نہیں سکتا
کام جو بھی ہوا حسین سے ہے

فہم و ادراک، علم و عقل و شعور
مجھکو سب کچھ ملا حسین سے ہے

مختصر ہے یہی برائے حسین
راضی خود کبریا حسین سے ہے

غمِ شبیر ہی کا صدقہ ہیں
آنسوؤں کی بقا حسین سے ہے

منحصر ہے حسین پر محشر
ہاں جزا اور سزا حسین سے ہے

دیکھ لوں روضہ شاہ کا *عارف*
بس یہی التجا حسین سے ہے
عسکری *عارف*

Monday, 16 April 2018

سلام

سلام سفرِ عشق
کلام عسکری عارف

عصمت کے آسماں کے ستارے سفر میں ہیں
ایماں کی رہگزر پہ اجالے سفر میں ہیں

اے آفتاب اپنی تمازت کو ضبط کر
بنت نبی کی گود کے پالے سفر میں ہیں

قرآن بھی نکل پڑے جزدان چھوڑ کر
آیات ہیں سفر میں سپارے سفر میں ہیں

مہندی بیاہ نیگ دلہن سرخ پیرہن
صغری کی حسرتوں کے جنازے سفر میں ہیں

خواہر کی یاد میں ہے برادر کی آنکھ نم
اشکِ غمِ فراق کے دھارے سفر میں ہیں

ہیں پُر سکون، سوچ کے یہ بیبیاں تمام
ہمراہ اپنے سارے سہارے سفر میں ہیں

کس شان سے چلی ہیں نبی کی نواسیاں
اٹھارا بھائیوں کے حوالے سفر میں ہیں

اک دوسرے سفر کی بھی تصویر دیکھئے
چوتھے امام طوق سنبھالے سفر میں ہیں

یثرب سے کربلا کوئی پیدل نہیں چلا
واپس ہوئے تو پاؤں کے چھالے سفر میں ہیں

عارف نہ تھم سکے گا کبھی عشق کا سفر
اب بھی سناں پہ حق کے جیالے سفر میں ہیں

عسکری عارف

Monday, 9 April 2018

غزل

غزل
کیوں یہ کہتے ہو کہ ایسا نہیں ہونے والا
آدمی چاہے تو پھر کیا نہیں ہونے والا

خواہشیں ہوتی ہیں انسان کی فطرت میں نہاں
کوئی انسان فرشتہ نہیں ہونے والا

منصب و تخت و زر و لعل و گہر اپنی جگہ
مجھ سے احساس کا سودا نہیں ہونے والا

ایک ہی بار میں جاں ہار چکا لٹ بھی چکا
اب مجھے عشق دوبارا نہیں ہونے والا

یوں تو ہوتا ہے ہے ہر اک مرض کا نسخہ لیکن
عشق کا روگ تو اچھا نہیں ہونے والا

لاکھ روشن ہوں دیے یا کوئی سورج نکلے
شہرِ ظلمت میں اجالا نہیں ہونے والا

سر مرا کاٹ کے نیزے پہ چڑھا دے ظالم
مجھ سے بیعت کا ارادہ نہیں ہونے والا

زیرِ خنجر جو کرے شکر کا سجدہ عارف
آدمی اب کوئی ایسا نہیں ہونے والا
عسکری *عارف*

غزل

خود سے بیزار ہو گیا ہوں میں
کتنا دشوار ہو گیا ہوں میں

چبھ رہا ہوں سبھی کی آنکھوں میں
کیا کوئی خار ہو گیا ہوں میں

اب کسی کو بھی میں قبول نہیں
ایسا انکار ہو گیا ہوں میں

عشق کرنا ہے گر گناہ تو سن
ہاں گنہگار ہو گیا ہوں میں

اب مجھے کوئی ٹوکتا ہی نہیں
یوں سمجھدار ہو گیا ہوں میں

میری آنکھوں کو خواب چبھنے لگے
ایسا بیدار ہو گیا ہوں میں

خود ہی مجبور خود ہی جابر بھی
خود ہی مختار ہو گیا ہوں میں

مجھکو ہونا تھا دہر میں انساں
سو عزادار ہو گیا ہوں میں

Sunday, 8 April 2018

غزل

حضرت جون ایلیا کی نذر

سوچتا   ہوں   میں   اطمنان   میں   کیا
خود غرض  سب ہیں اِس جہان میں کیا

تیرے  ہونٹوں  کا زہر   پینے سے
جان آئے گی میری جان میں کیا

ایک  شیشی  بھی   زہر  کی  نہ  ملی
کچھ بھی رکھتے نہیں دکان میں کیا

بام و دیوار  و در ہیں گرنے کو
کوئی رہتا نہیں مکان میں کیا

چند قدموں میں تھک گئے تم تو
کانٹے  پڑنے  لگے  زبان  میں  کیا

یہاں پھولوں کا کچھ وجود نہیں
صرف کانٹے ہیں گلستان میں کیا

مثل ِ   دیوار     دو  دلوں   کے     لئے
میں بھی حائل ہوں درمیان میں کیا

حال   اپنا  بھی  ہے   فقیروں  سا
کچھ کمی ہے ہماری شان میں کیا

پاؤں رکھتے نہیں زمین پہ کیوں
تم بھی  رہتے ہو  آسمان میں کیا
عسکری عارف

خراج تحسین حسن نصراللہ

خراجِ تحسین شہیدِ مقاومت آیت اللہ سید حسن نصراللہؒ مردِ حق، سید و سردار حسن نصراللہؒ بے سہاروں کے  مددگار حسن نصراللہؒ فوجِ  ایماں کے علمدار...