کیا بتاؤں میں کیا حسین سے ہے
سید الانبیا حسین سے ہے
جس نے بخشی ہے زندگی حق کو
ہاں وہی کربلا حسین سے ہے
جس سے ملتی ہے موت کو بھی حیات
ہاں وہ خاک شفا حسین سے ہے
عشق کی ابتدا تھی آدم سے
عشق کی انتہا حسین سے ہے
ناخدائے سفینہ ہائے نجات
خلد کا راستہ حسین سے ہے
مرکزِ انقلاب ذاتِ حسین
حریت کی بقا حسین سے ہے
جو بھی چاہو وہ مانگ لو آکر
درِ امید وا حسین سے ہے
چاند سورج یہ کہکشاں تارے
روشنی جابجا حسین سے ہے
کچھ بھی ہو جائے رد نہیں ہوگی
میں نے مانگی دعا حسین سے ہے
حق شناسی اُسے نہیں حاصل
جو نہیں آشنا حسین سے ہے
مری خوشیاں بھی ہیں حسین حسین
درد و غم کی دوا حسین سے ہے
ہر صدی میں ہر اک زمانے میں
ظلم کا خاتمہ حسین سے ہے
ساری دنیا کے حق پرستوں کا
عزم فولاد سا حسین سے ہے
بخدا کوئی کر نہیں سکتا
کام جو بھی ہوا حسین سے ہے
فہم و ادراک، علم و عقل و شعور
مجھکو سب کچھ ملا حسین سے ہے
مختصر ہے یہی برائے حسین
راضی خود کبریا حسین سے ہے
غمِ شبیر ہی کا صدقہ ہیں
آنسوؤں کی بقا حسین سے ہے
منحصر ہے حسین پر محشر
ہاں جزا اور سزا حسین سے ہے
دیکھ لوں روضہ شاہ کا *عارف*
بس یہی التجا حسین سے ہے
عسکری *عارف*