Thursday, 22 June 2017

ہیبت سلام

ہلتی ہے زمیں دیکھکے جرّار کی ہیبت
اللہ رے یہ َشہ کے علمدار کی ہیبت

ہے تخت پہ حاکم وہ مگر کانپ رہا ہے
ہے دل میں ستمگر کے بیمار کی ہیبت

مانا کہ گرفتارِ ستم شیر ہے لیکن
زنجیر ابھی توڑےگی مختار کی ہیبت

ٹکراتی ہیں رہ رہ کے حدِ شام سے فوجیں
کربل میں تھی یہ شاہ کی تلوار کی ہیبت

ظالم جو سرِدار زباں کاٹ رہے ہیں
ہے دار پہ یہ میثمِ تمار کی ہیبت

بیعت کے تلبگار فنا ہو گئے دیکھو
یہ ہے مرے شبیر کے انکار کی ہیبت

منہ پھیر کے ہرگز کبھی روتے نہ یزیدی
ہوتی نہ اگر اصغرِ جرار کی ہیبت

حاکم تو کئ رات سے سویا ہی نہیں ہے
اے بیبی یہ ہے آپکی گفتار کی ہیبت

سر کاٹ دیا پھر بھی ستم خوف زدہ ہے
نیزے پہ ہے یہ سیدِ ابرار کی ہیبت

عارف یوں ستاتا ہے لعینوں کو ترا ڈد
خنجر سے جدا ہے ترے اشعار کی ہیبت.

التماسِ دعا--- محمد عسکری عارف------

جس گھر میں بپا ماتم سرور نہیں ہوتا


جس گھر میں بپا ماتمِ سرور نہیں ہوتا
وہ گھر تو جہنم ہے وہ گھر گھر نہیں ہوتا

سنکر غمِ شبّیر جو نہ اشک بہائے
دنیا میں کوئی ایسا بھی پتّھر نہیں ہوتا

یہ زینب و سجاد کی محنت کا اثر ہے
ورنہ غمِ شبّیر بھی گھر گھر نہیں ہوتا

بِن مانگے جو دے دے یونہی جنّت کی ضمانت
شبّیر کوئی آپسا رہبر نہیں ہوتا

اک بار اگر اذنِ وغا شیر کو ملتی
پھر دشت میں نو لاکھ کا لشکر نہیں ہوتا

یہ تو مرے مولا کا چمتکار تھا ورنہ
فطرس تری قسمت میں کبھی پر نہیں ہوتا

تاریخ میں لشکر تو نظر آئے ہیں لاکھوں
لشکر ہی کوئی مثلِ بہتّر نہیں ہوتا

یوسف تو یہی سوچ کے حیران ہیں کب سے
کیوں جون سے بڑھکے کوئی سُندر نہیں ہوتا

یہ راز کھلا فرش پہ اشکوں کو بہاکر
آنکھوں سے بڑا کوئی سمندر نہیں ہوتا

سوکر یہی محسوص ہوا فرشِ عزا پر
اس فرش سے بہتر کوئی بستر نہیں ہوتا

جِس حلق کو چوما ہو محمد سے نبی نے
اُس حلق کی تقدیر میں خنجر نہیں ہوتا

جس پر نہ بیاں ہوں مرے مولا کے فضائل
وہ مسندِ ابلیس ہے، منبر نہیں ہوتا

اشعار کہاں میرے کہاں فکرِ انیسی
ذرّہ کبھی خورشید کے ہمسر نہیں ہوتا

یا رب تو دکھا جلد مجھے روضہء سرور
عارف کو کہیں چین میسّر نہیں ہوتا.

التماسِ دعا- محمد عسکری عارف--

Friday, 16 June 2017

پرغم صدائے غیب فلک سے آئی ہے

نوحہ

پُرغم صدائے غیب فلک سے یہ آئی ہے
سجدے میں تیغ شیرِ الٰہی نے کھائی ہے

محوِ نمازِ صبح تھے مولائے کائنات
تلوار چھپ کے سر پہ لعیں نے لگائی ہے

دنیا میں چند روز کا میھمان ہے علی
شیعوں سے اب امام کا وقتِ جدائی ہے

حسنین رو رہے ہیں عماموں کو پھینک کر
مسجد میں ایک بدلی مصائب کی چھائی ہے

گہرا ہے زخم سر پہ ہیں کپڑے لہو میں تر
خوں میں امامتوں کی امامت نہائی ہے

مسجد میں رو رہے ہیں تڑپکر حسن حسین
لپٹا ہوا کلیجے سے بھائی کے بھائی ہے

تنویر جسکی پھیلی تھی سارے جہان میں
ظالم نے دیکھو آج وہ شمّع بجھائی ہے

کیسا ستم ہوا یہ شہ ذوالفقار پر
ہے سرخ آسماں تو زمیں تھرتھرائی ہے

اب کون ہوگا بیووں یتیموں کا مددگار
مسکین روکے کہتے ہیں یا رب دہائی ہے

چالیس دن بجھی تھی جو تلوار زہر میں
ضربت اُسی سے سر پہ علی کے لگائی ہے

*عارف* پچھاڑیں کھاتی تھیں حیدر کی بیٹیاں
بیٹوں نے جبکہ باپ کی میت اٹھائی ہے

سید محمد عسکری *عارف* اکبرپوری

Thursday, 15 June 2017

زخمی ہوا ہے شیر خدا کا نماز میں

باسمہ تعالٰی

تازہ نوحہ درحال شہادتِ مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام

زخمی ہوا ہے شیر خدا کا نماز میں
ظالم نے روزہ دار کو مارا نماز میں

تیغِ دغا سے ہو گیا مولا کا سر شگاف
تڑپا کیا حسین کا بابا نماز میں

واللہ ہو گیا ہے علی آج کامیاب
لب پہ ہے بس علی کے یہ کلمہ نماز میں

زلفیں لہو ہیں، ریشِ مبارک لہو لہو
خوں میں ہے تر امام کا چہرہ نماز میں

کیسا یہ ظلم کر دیا ظالم نے ہائے ہائے
مولائے کائنات کو  مارا  نماز میں

روتے ہیں سر کو پیٹ کے سائل یتیم سب
چھوٹا جہاں سے سبکا سہارا نماز میں

رو رو کے حالِ زینب و کلثوم ہے تباہ
بچوں نے پایا باپ کا صدمہ نماز میں

بے ساختہ لرز گئے حسنین اُس گھڑی
دیکھا جو باباجاں کو تڑپتا نماز میں

پیدا ہوا تھا گھر میں جو اللہ کے وہی
خالق کی بارگاہ میں پہنچا نماز میں

سر ہے شگاف یا کہ ہے قرآن تار تار
ٹکڑے ہوا ہے نہجِ بلاغہ نماز میں

*عارف* لبِ علی پہ بجز شکرِ کبریا
اک لفظِ بددعا بھی نہ آیا نماز میں

سید محمد عسکری *عارف* اکبرپوری

لہولہان ہے دیں کا شباب سجدے میں

باسمہ تعالٰی

نوحہ درحال شہادتِ مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام

لہو لہان ہے دیں کا شباب سجدے میں
تڑپ رہے ہیں علی بوتراب سجدے میں

لگی جو ضرب تو مولا نے چیخ کر یہ کہا
خدا قسم میں ہوا کامیاب سجدے میں

چلی جو ظلم کی تلوار سر پہ مولا کے
خدا کا شیر نہ لا پایا تاب سجدے میں

یہ کہکے ڈوب گئے آسمان میں تارے
ہوا غروب مِرا آفتاب سجدے میں

سماں یہ دیکھ کے ہلتی ہے مسجدِ کوفہ
امامِ دیں کو بصد اضطراب سجدے میں

وہ جسکے سجدوں پہ خود ناز کرتے تھے سجدے
ہوا شہید وہ عالیجناب سجدے میں

لو آج گلشنِ اسلام پھر ہوا برباد
کچل اٹھا ہے علی سا گلاب سجدے میں

لگا کے ضرب علی پر بتا بنِ ملجم
کِیا ہے کیسا یہ کارِ عذاب سجدے میں

بہت ہی پیاسہ تھا زہرا کا لال وقتِ ذبح
دیا کسی نے نہ اک قطرہ آب سجدے میں

تھا جسکا فیضِ کرم عام سارے عالم پر
گرا وہ علم و محبت کا باب سجدے میں

لہو بہاتی ہیں رو روکے آیتیں *عارف*
لہو لہو ہے خدا کی کتاب سجدے میں

سید محمد عسکری *عارف*

Saturday, 10 June 2017

عزا و مجلس و ماتم علم سے ڈرتے ہیں

باسمہ تعالٰی

عزا و مجلس و ماتم علم سے ڈرتے ہیں
یزید والے شہ دیں کے غم سے ڈرتے ہیں

عدد میں ہم سے زیادہ ہیں منکرانِ حسین
عجیب بات ہے پھر بھی وہ ہم سے ڈرتے ہیں

ہے امن اور امامِ حسن سے بغض اِنہیں
اسی لئے تو یزیدی قلم سے ڈرتے ہیں

خود اِنکا سامنا کرنے سے موت ڈرتی ہے
نہیں حسین کے عاشق عدم سے ڈرتے ہیں

قلیل لشکرِ ایماں ہے کربلا میں مگر
کثیر لشکرِ شیطان کم سے ڈرتے ہیں

سعودی، داعش و امریکہ اور اسرائیل
بس ایک چھوٹے سے ملکِ عجم سے ڈرتے ہیں

جو رات بھر نہیں سوئے علم کی چاہت میں
وہ لوگ آج جلوس و علم سے ڈرتے ہیں

ہمیں ہے جان سے بڑھکر عزیز شاہ کا غم
یہ مت سمجھنا عزادار بم سے ڈرتے ہیں

اسیر ہوگئے اہلحرم مگر *عارف*
یزیدیت کے سپاہی حرم سے ڈرتے ہیں

سید محمد عسکری *عارف* اکبر پوری

غزل

تازہ غزل

درد ایسا ہے نہ سہا جائے
اب مجھے زہر دے دیا جائے

مقصدِ زیست ہو چکا پورا
مجھکو مقتول کر دیا جائے

کسطرح طے ہو وہ سفر جس میں
ساتھ قدموں کے راستہ جائے

جس کو کرب و بلا نے گھیرا ہو
جائے جائے وہ کربلا جائے

چار جانب یہاں لٹیرے ہیں
کیسے منزل کو قافلہ جائے

جسکو نفرت ہے میری صورت سے
میری محفل سے وہ چلا جائے

مجھکو وہ آدمی پسند نہیں
حد سے زائد جو بولتا جائے

جو تھا تقدیر میں لکھا وہ ہوا
کفِ افسوس کیوں ملا جائے

جز تشدد، فساد و آہ و بکا
کیا لکھا جائے کیا پڑھا جائے

روٹی سوکھی مگر حلال کی ہے
میری غربت پہ کیوں ہنسا جائے

سید محمد عسکری *عارف*

Thursday, 8 June 2017

قصیدہ امام حسن علیہ السلام


باسمہ سبحانہ

نسبت جو گلستاں کو بہار و سمن سے ہے
رشتہ وہ پنجتن کا امام حسن سے ہے

یہ ہے نثار سیدِ مرسل کی ذات پر
قربان اِس پہ حق کا نبی جان و تن سے ہے

تلوار و تیر اور نہ خنجر کا خوف ہے
باطل کو خوف اب بھی قلم اور سخن سے ہے

زہرا و مصطفی و علی اور حسن حسین
دنیا میں روشنی اِنہیں پانچوں کرن سے ہے

کرب و بلا میں جسکو کفن تک نہ مل سکا
حاجت ہمیں کفن کی اسی بے کفن سے ہے

شیعہ ہو گر علی کے تو حق بات بولنا
تو کیا ہوا جو سامنا دار و رسن سے ہے

اُسکو ہی مل سکے گی شفاعت رسول کی
جسکو بھی عشق سبطِ رسولِ زمن سے ہے

*عارف* وہی ہے سنّتِ احمد کا پاسباں
الفت جسے امامِ حسین و حسن سے ہے

سید محمد عسکری *عارف*

خراج تحسین حسن نصراللہ

خراجِ تحسین شہیدِ مقاومت آیت اللہ سید حسن نصراللہؒ مردِ حق، سید و سردار حسن نصراللہؒ بے سہاروں کے  مددگار حسن نصراللہؒ فوجِ  ایماں کے علمدار...