ہلتی ہے زمیں دیکھکے جرّار کی ہیبت
اللہ رے یہ َشہ کے علمدار کی ہیبت
ہے تخت پہ حاکم وہ مگر کانپ رہا ہے
ہے دل میں ستمگر کے بیمار کی ہیبت
مانا کہ گرفتارِ ستم شیر ہے لیکن
زنجیر ابھی توڑےگی مختار کی ہیبت
ٹکراتی ہیں رہ رہ کے حدِ شام سے فوجیں
کربل میں تھی یہ شاہ کی تلوار کی ہیبت
ظالم جو سرِدار زباں کاٹ رہے ہیں
ہے دار پہ یہ میثمِ تمار کی ہیبت
بیعت کے تلبگار فنا ہو گئے دیکھو
یہ ہے مرے شبیر کے انکار کی ہیبت
منہ پھیر کے ہرگز کبھی روتے نہ یزیدی
ہوتی نہ اگر اصغرِ جرار کی ہیبت
حاکم تو کئ رات سے سویا ہی نہیں ہے
اے بیبی یہ ہے آپکی گفتار کی ہیبت
سر کاٹ دیا پھر بھی ستم خوف زدہ ہے
نیزے پہ ہے یہ سیدِ ابرار کی ہیبت
عارف یوں ستاتا ہے لعینوں کو ترا ڈد
خنجر سے جدا ہے ترے اشعار کی ہیبت.
التماسِ دعا--- محمد عسکری عارف------