Posts

میں روز ازل سے ہوں طلبگار مدینہ نعت شریف

نعت شریف بحضور سرور کائنات محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم میں روزِ ازل سے ہوں طلبگارِ مدینہ اللہ مجھے کر دے گرفتارِ مدینہ پھر اُسکو مسیحائی کی حاجت نہیں ہوتی اک بار جو ہو جاتا ہے بیمارِ مدینہ اب میری نظر گنبدِ خضری پہ ٹکی ہے لو مجھ پہ بھی کُھلنے لگے اسرارِ مدینہ مخلوقِ خداوند ہے مقروضِ محمدؐ ہر کوئی جہاں میں ہے نمکخوارِ مدینہ محروم تھی آداب و ادب سے یہ خدائی جب تک نہ کھُلا مکتبِ اطوارِ مدینہ سامرّا، نجف، کرب و بلا، مشہد و مکہ جو بُغض رکھے اِن سے ہے غدارِ مدینہ ہے فیضِ کرم عام زمانے پہ نبیؐ کا وا سب کے لیے ہے درِ سرکارِ مدینہ 'والشمس' و 'الی النور' ہوئے جسکا قصیدہ وہ ذاتِ نبیؐ مطلعِ انوار مدینہ 'لولاک لما'، عشقِ محمدؐ کی گواہی 'والفجر' ثنائے درِ شہوارِ مدینہ عارفؔ کو بھی حاصل ہو شرف اے مرے مولا اب جلد بنا دے اِسے زوارِ مدینہ عسکری عارفؔ

نعت ذرہ ذرہ گلزار ہوا سرکار دو عالم آئے ہیں

ذرہ ذرہ گلزار ہوا سرکارِ دو عالم آئے ہیں رحمت سے جہاں سرشار ہوا سرکار دو عالم آئے ہیں ہر سمت سے خوشبو آتی ہے، ہر پھول کھِلا ہے گلشن میں رہ رہ کے چہکتی ہے بلبل، بھوروں کی صدا ہے گلشن میں صحرا صحرا گلزار ہوا سرکارِ دو عالم آئے ہیں مکہ کی زمیں پر اترا ہے اک نور سراپا رحمت کا لو جہل کی ظلمت ختم ہوئی، ہر سو ہے اجالا رحمت کا رحمت سے جہاں ضوبار ہوا سرکار دو عالم آئے ہیں آتی ہے صدائے صلِ علی، ہر مومن کا دل شاد ہوا منصوبہء باطل چاک ہوا اور کفر کا گھر برباد ہوا شیطان ذلیل و خوار ہوا سرکارِ دو عالم آئے ہیں ٹھنڈی ہوئی آگ جہنم کی انگارے بھی گلزار ہوئے سب نخوتِ کسری خاک ہوئی، دیوار پھٹی، کنگرے بھی گرے باطل کا محل مسمار ہوا سرکار دو عالم آئے ہیں جبریل قصیدہ پڑھتے ہیں، مسرورِ نظامِ عالم ہیں ہیں نوحؑ کے لب پر نعت سجی، پُرکیف جنابِ آدمؑ ہیں نبیوں کا بھی بیڑا پار ہوا سرکار دو عالم آئے ہیں وہ نور جو قبلِ آدمؑ تھا، وہ نور جو قبلِ دنیا تھا وہ نور کہ جسکے صدقہ میں اللہ نے آدمؑ کو بخشا اُس سے روشن سنسار ہوا سرکارِ دو عالم آئے ہیں نسواں کا مقدر جاگ اٹھا، بیٹی رحمت کہلائے گی درگور نہ ہوگی اب زندہ، ہر ظلم سے راح...

آخری سلام

آخری سلام کہتے ہیں روکے اہلِ عزا آخری سلام اے ناصرانِ دینِ خدا آخری سلام زندہ رہے جو اگلے برس غم منائیں گے فرشِ عزا حسینؑ تمہارا بچھائیں گے ورنہ ہے شاہِ کرب و بلا آخری سلام روئے تمہارے غم میں سوا دو مہینے ہم آنکھیں رہیں ہماری صدا آنسوؤں سے نم پر حقِّ غم ادا نہ ہوا اخری سلام دل میں قلق ہے کھول کے دل ہم نہ رو سکے آنکھیں ہیں پُرملال و خجِل ہم نہ رو سکے کیسے کہیں امامؑ بھلا آخری سلام ہونے کو ہیں عزا کی سبھی رونقیں تمام یہ شبِّ داریاں یہ جلوسوں کا اہتمام ہوں گے اب اگلے سال بپا آخری سلام اکبرؑ پہ تیرے روئے مگر دل نہیں بھرا آنسو لہو کا آنکھ سے جاری نہیں ہوا ہمکو معاف کرنا شہا آخری سلام ایامِ غم تمام ہیں، آنکھیں ہیں اشکبار ہائے حسینؑ کہ کے تڑپتے ہیں سوگوار رو رو کے دے رہے ہیں صدا آخری سلام سوز و سلام و مرثیہ، نوحہ، صدائے غم جو اہتمام ہم نے کیے ہیں برائے غم کیجے قبول شاہ ھدا، آخری سلام ہر غم کا ہے علاج، دوائے غمِ حسینؑ کوئی بھی غم ملے نہ سوائے غمِ حسینؑ عارفؔ کے ہے لبوں پہ دعا آخری سلام عسکری عارفؔ

نوحہ مدینہ ائے ہیں اہل حرم زندان سے چھٹ کر

مدینہ آئے ہیں اہل حرم زندان سے چھٹ کر بدن پر کالے کپڑے ہیں، سفر کی گرد چہرے پر مدینہ دیکھ کر کلثوم نے رو کر پڑھا نوحہ مدینہ تو ہمارے آنے کو مقبول مت کرنا گیے تھے جب یہاں سے تھا چمن آباد زہرا کا ہماری گودیاں اجڑیں، نہیں وارث رہے سر پر جو پردے کا محافظ تھا لبِ دریا گیا مارا تڑپ کے تڑپ کر زانوئے شبیر پہ اکبرؑ نے دم توڑا ہوا پامال گھوڑوں کی سموں سے دلبرِ فروی لگا تیرِ ستم چھ ماہ کے اصغرؑ کی گردن پر اداسی چھائی ہے چہروں پہ آنکھوں میں ہیں اشکِ غم کچھ ایسے زخم ہیں دل میں نہیں جن کا کوئی مرہم سروں کو پیٹ کر کرتا ہے کنبہ نوح و ماتم مدینہ لٹ گیا لوگوں صدا دیتے ہیں رو رو کر ضعیفی آ گئی  سجاد پر بارِ مصیبت سے لرزتا ہے بدن بیمار کا ضعف و نقاہت سے چلا جاتا نہیں دو گام چھالوں کی اذیت سے گلا زخمی ہے ایسا سانس بھی لینا ہوا دوبھر پڑے ہیں پیاس سے کانٹے یتیموں کی زبانوں میں نشانِ ریسماں تازہ ہیں بیواؤں کے شانوں میں فقط سجادؑ ہی زندہ ہیں مردوں میں جوانوں میں ہوئے پردیس میں برباد ایسے آلِ پیغمبرؐ جو جینے کا سہارا تھے انہیں جنگل میں چھوڑ آئے دلوں پر داغ ہیں سب کے کوئی کیسے سکوں پائے وہ ہنستا کھیلتا کنبہ ...

اسلام بچانے والے کے مقصد کو بچایا زینبؐ نے

مصرعہ طرح 'اسلام بچانے والے کے مقصد کو بچایا زینبؐ نے' انجمن عباسیہ نمولی ایودھیا کیا خوب لیا ہے ظالم سے شبیرؑ کا بدلا زینبؐ نے شمشیر سے اپنے خطبوں کی سر ظلم کا کاٹا زینبؐ نے گر ختم امامت ہو جاتی لازم تھا قیامت آ جاتی عاشور کو جلتے خیموں میں اسلام بچایا زینبؐ نے بھائی نے کیا گلزارِ ارم اک روز میں دشتِ کربل کو اور شام کو نوری لہجے سے بخشا ہے اجالا زینبؐ نے جس شہرِ ستم سے اٹھی تھی تاغوت کی بیعت کی آواز اُس شہر میں فتحِ سرورؑ کا پرچم لہرایا زینبؐ نے باقی نہ رہی سر پہ چادر، رسی سے بندھے تھے ہاتھ مگر ایوانِ یزیدی کو عزم و ہمت سے گرایا زینبؐ نے سایہ کی طرح ہمراہ رہی ہر گام بھتیجے کے اپنے سجادؑ کو اک لمحہ کے لیے چھوڑا نہ اکیلا زینبؐ نے اس واسطے باقی حشر تلک حیدرؑ کی ولایت ہے لوگو 'اسلام بچانے والے کے مقصد کو بچایا زینبؐ نے' اللہ رے صبرِ بنتِ علیؑ تھی سامنے میت بیٹوں کی اِس پر بھی خدا کا شکر کیا، آنسو نہ بہایا زینبؐ نے عاشور کو اپنی آنکھوں سے کس طرح سے دیکھا رب جانے بھائی کے گلے پہ کند چھری، اکبرؑ کا کلیجہ زینبؐ نے چادر بھی چھنی، خیمے بھی جلے، گھر بار لٹا، قیدی بھی بنی...

شام غریباں

ہائے شام غریباں جب کٹ گیا شبیرؑ کا سر دشتِ بلا میں انصار  ہوئے  قتل سبھی  راہِ خدا  میں اک دھوم  مچی  لشکرِ اربابِ جفا میں مظلومی تھی غربت تھی فقط آلِ عبا میں سادات  پہ  کرنے کو ستم  اور زیادہ خیموں کو جلانے کے لیے آ گیے اعدا اسبابِ  حرم   لوٹنے    کا   کرکے   ارادہ جب خیموں میں  لشکر عمرِ سعد کا آیا سادات میں اک حشر تھا، کہرام بپا تھا بچوں کے جگر ہلتے تھے، روتی تھی سکینہؐ ہر سمت فقط گریہ و زاری کا سماں تھا اولادِ   محمدؐ   پہ  گرا   کوہِ   گراں  تھا وہ جن سے زمانے میں تھا پردے کا چلن عام انکی  ہی  ردا   لوٹنے  کو   آئے  خوں   آشام ہنستے  ہوئے  آتے  تھے   نظر  اشقیا  ہر  گام تھی اہلحرم  پر  یہ  قیامت  سے  بڑی  شام سادات کی آنکھوں سے لہو پھوٹ رہے تھے ہنس ہنس  کے  ستمگار  ردا  لوٹ رہے  تھے جب شمر نے زینب...

رباعیات

مرقد نبیؐ کا، بھائی کا روضہ چھوڑا اک رات میں شبیرؑ نے کیا کیا چھوڑا اُس روز سے زہراؐ نے بھی مسکن چھوڑا جس روز  سے  سرورؐ نے  مدینہ چھوڑا غم شہ کا رخِ حق کے لیے غازہ ہے چودہ سو برس بعد بھی یہ تازہ ہے جو روتا ہے شبیر کے غم میں عارفؔ وا اُس کے لیے خلد کا دروازہ ہے بازار میں تھے اہلحرم بے چادر سجادؑ کی غیرت سے نہ آٹھتی تھی نظر لکھا ہے کہ نیزے  سے  کئی بار گرا احساس ندامت سے علمدارؑ کا سر زوّارِ  شہؑ   دیں  کا  شرف  عالی  ہے طاعت سے قدم اُسکا نہیں خالی ہے جب روضہء شبیرؑ کو دیکھا تو لگا معراج  سرِ  عرشِ  عُلا  پا  لی  ہے دو ماہ دیا ہے بھرے گھر کا  پُرسہ اب دیجیے مسموم  پسرؑ  کا پُرسہ دو  داغ  ملے ایک ہی دِن  زہراؐ کو شہزادیؐ کو دو اُنکے پدرؐ کا پُرسہ جس  نے  غمِ   شبیرؑ  کی  دولت  پائی بے تخت و محل اُس نے حکومت پائی جو رویا  حسین  ابن علیؑ  پر  عارفؔ اُس نے ہی  محمدؐ  کی شفاعت پائی   شبیرؑ کا  غم روح...