Monday, 24 February 2025

خراج تحسین حسن نصراللہ

خراجِ تحسین شہیدِ مقاومت آیت اللہ سید حسن نصراللہؒ

مردِ حق، سید و سردار حسن نصراللہؒ
بے سہاروں کے  مددگار حسن نصراللہؒ
فوجِ  ایماں کے علمدار حسن نصراللہؒ
عزم  کی  آہنی  دیوار حسن  نصراللہؒ
ظلم کے دل میں ترے نام کا ڈر زندہ ہے
حشر تک تیری شہادت  کا  اثر زندہ ہے

روضۂ حضرتِ زینبؐ کی حفاظت کی ہے
تونے اس  طرح  ادا اجرِ رسالت  کی  ہے
ڈٹ کے میدان میں اسلام کی نصرت کی ہے
تونے تاعمر فقط  دین کی خدمت کی ہے
ظلم سے آخری  دم  بر سرِ  پیکار  تھا تو
کیا غلط ہے جو کہوں وقت کا مختار تھا تو

خاکِ مقتل میں ابھی تیری نمو باقی ہے
شہ رگِ حق میں ابھی تیرا لہو باقی ہے
اے  گلِ  گلشنِ  ایماں تری  بو  باقی ہے
مٹ گیا تیرا  بدن  آج  بھی تو باقی ہے
خوف طاری ہے ترا وقت کے شیطانوں پر
تری ہیبت ہے ابھی ظلم کے ایوانوں پر

تری جرات  تری حکمت تری تقریروں سے
تری تعریف میں لکھی گئی تحریروں سے
سرِ میدانِ  تری  جنگ  کی تدبیروں سے
ظلم کو آج بھی ڈر ہے تری تسخیروں سے
کتنے بزدل ہیں یہ صہیونی بتا دیتے ہیں
فیس بک سے  تری تصویر  ہٹا دیتے ہیں

ڈالر و طاقت  و  ایوان و حکومت کا غرور
سر پہ چڑھتا ہوا مشروبِ غلاظت کا سرور
برخلافِ  روشِ  دینِ  خداوند   امور
تونے منصوبہ کیا ایسے ستمگار کے چور
موت کے خوف سے وہ گھر میں چھپا بیٹھا ہے 
مرحبِ وقت تو بنکر میں چھپا بیٹھا ہے

ایک  تابندہ   حقیقت  ہے  تری  قربانی
فخرِ  اربابِ  شہادت   ہے  تری  قربانی
حق پرستوں کی امانت ہے تری قربانی
اک قیامت  کی علامت  ہے تری قربانی
پنجہء ظلم سے اقصٰی کی رہائی ہوگی
تری قربانی سے  دنیا  میں تباہی ہوگی

ہے  رقم صفحہء ہستی پہ شجاعت تیری
حوصلہ بخشے گی مومن کو شہادت تیری
مہر ہے  سینہء ایقان پہ صورت تیری
خاک کر دیگی نتنیاہو کو حشمت تیری
ہاں یہ آغاز ہے صہیون کی بربادی کا
آ گیا  وقت   فلسطین  کی  آزادی  کا

حرمِ  ثانیِ  زہرا  کے  مکیں  تجھ  پہ  سلام
پیکرِ صبر و مساوات و یقیں تجھ پہ سلام
تاجِ  اقلیمِ حمیت کے  نگیں تجھ پہ سلام
خم بصد اشک ہے عارفؔ کی جبیں تجھ پہ سلام
کربلا والوں کی سیرت پہ عمل تونے کیا
ہم تو بزدل ہیں ولایت پہ عمل تونے کیا
عسکری عارفؔ

Sunday, 23 February 2025

نام پر اُس کے خدا خلد میں گھر کرتا ہے

نام پر اُس کے خدا خلد میں گھر کرتا ہے
غمِ شبیرؑ میں آنکھوں کو جو تر کرتا ہے

نام اُسکا بھی  شہیدوں میں لکھا جاتا ہے
حبِّ حیدرؑ میں جو دنیا سے سفر کرتا ہے

بہر خوشنودیِ حق سر کو کٹاتا ہے امامؑ
موت  کے ڈر سے خلیفہ ہی مفر کرتا ہے

نوکِ نیزہ کی بلندی سے خدا سے باتیں
کوئی موسیؑ نہیں شبیرؑ کا سر کرتا ہے

یہ کلیجہ  ہے حسین ابنِ علیؑ  کا عارفؔ
ورنہ صدقہ کوئی بیٹے کا جگر کرتا ہے
عسکری عارفؔ

ذوالفقار

Friday, 21 February 2025

ایسے جلوے کبھی دیکھے نہ تو غیبت ایسی

مصرع طرح: ایسے جلوے کبھی دیکھے نہ تو غیبت ایسی

آسماں  خم  سرِ  تسلیم  ہے قامت  ایسی
جلوہ طور بھی مغلوب ہے صورت ایسی

یاد آ جائے گی حیدرؑ کی خلافت سبکو
آپکی ہوگی زمانے پہ حکومت ایسی

کٹ کے دو حصوں میں بٹ جائے گا دشمن حق کا
تیغِ حیدرؑ کی نظر ائے گی ضربت ایسی

دیکھ کر حضرتِ حجت (عج) کو کہے گی دنیا
ایسے جلوے کبھی دیکھے نہ تو غیبت ایسی

بھید کھُل جائے گا طاغوت کے کارندوں کا
غیب  سے  ہوگی نمودار  حقیقت  ایسی

بھاگ کر  کوئی کہیں  پر  نہ اماں پائے گا
 اُن کے حملوں میں نظر آئے گی وسعت ایسی
عسکری عارفؔ

Tuesday, 18 February 2025

سمیٹ کے


مسدس حضرت قاسم

نورِ   نظرِ   شبرِؑ   ذی  جاہ  ہے  قاسمؑ
ہمت میں دلیری میں یدللہ  ہے قاسمؑ
عباسؑ سا غازی سرِ  جنگاہ  ہے قاسمؑ
ہر  دشمنِ  شبیرؑ  سے  آگاہ  ہے قاسمؑ
کی شام کے روباہوں پہ کچھ ایسی چڑھائی
یاد آ گئی لوگوں کو وہ خیبر کی لڑائی

وہ  آنکھ  کہ  والنور کی آیات ہیں قرباں
وہ زلف  کہ جس پر  ہے  فدا  ابرِ بہاراں
چہرے کی چمک ایسی کہ سورج بھی پشیماں
حیران نہ ہو کس لیے شہزادہء کنعاں
یہ نور بھی نورین کے سانچے میں ڈھلا ہے
یعنی کہ یہ حسنینؑ کہ گودی کا پلا ہے

کیا شان ہے کیا  دبدبہ کیا رعب و متانت
کیا  جذبہء  ایثار  ہے  کیا  شوقِ  شہادت
اِس تیرا برس سن میں یہ اندازِ شجاعت
یہ حلم یہ  تقوی یہ کرم اور یہ سخاوت
چھوٹے ہیں مگر شان و جلالت میں بڑے ہیں
شبیرؑ پہ جاں دینے  کو  تیار کھڑے ہیں

عالی  ہے  حسب  اور  نسب رتبہء عالی
وہ حُسن کی یوسفؑ بھی نظر آئیں سوالی
رفتار میں گفتار  میں شبرؑ کا مثالی
جنگاہ  میں  عباسِؑ دلاور سا جلالی
لایا ہے مدینہ سے جو تلوار حسنؑ کی
دکھلائے گا کربل میں یہ پیکار حسنؑ کی

دشمن کی صفوں میں جو پہلوان بڑے ہیں
کیوں قاسمِ جرار سے لڑنے پہ اڑے ہیں
بل کس لیے پھر اِنکی جبینوں پہ پڑے ہیں
کیا ہو گیا کیوں لرزہ بر اندام کھڑے ہیں
مجبور ہیں مقتل  سے مفر  کر نہیں سکتے
بچہ سے بھی میدان کو سر کر نہیں سکتے

وہ طرزِ وغا اور صفِ دشمن کی صفائی
جو   سامنے  آیا   اسے  لینے   اجل  آئی
وہ جاں سے گیا جس کی طرف آنکھ اٹھائی
یہ دیکھ کے انگشت بدنداں تھی خدائی
اس طرح  لڑا جرات شبرؑ  کا وہ عکاس
ہر شخص کو یاد آ گیا صفین کا عباسؑ

زندہ ہے  جو  انساں  یہ مزا  پا نہیں سکتا
کیا موت کی  لذت  ہے یہ  بتلا نہیں سکتا
کیا ہے یہ کسی اور کو سمجھا نہیں سکتا
جو  مر  گیا  اک  بار  جنم  پا نہیں  سکتا
بیگانہ  ہے  ہر  کوئی  زمانے میں قضا سے
قاسم  کو   مگر   ذائقہء   موت  پتہ   ہے
عسکری عارفؔ

خراج تحسین حسن نصراللہ

خراجِ تحسین شہیدِ مقاومت آیت اللہ سید حسن نصراللہؒ مردِ حق، سید و سردار حسن نصراللہؒ بے سہاروں کے  مددگار حسن نصراللہؒ فوجِ  ایماں کے علمدار...