جی جی کے مری جاں مجھے مرنا ہے ابھی اور
تنہا یہ سفر زیست کا کرنا ہے ابھی اور
جذبات کی گیرائی میں ڈوبا ہی کہاں ہوں
احساس کے دریا میں اترنا ہے ابھی اور
بادل کو ابھی چیریں گی سورج کی شعائیں
آلام کی گرمی میں نکھرنا ہے ابھی اور
مانند قمر صبح تو میں ڈوب گیا تھا
خورشید کی مانند ابھرنا ہے ابھی اور
مقتل تو کئی بار سجا میرے لہو سے
ہاں مجھکو تہ تیغ سنورنا ہے ابھی اور
مانا کہ تھکن پاؤں کی زنجیر ہے لیکن
عارف کو سرِ راہ گزرنا ہے ابھی اور