Thursday, 25 January 2018

غزل

جی جی کے مری جاں مجھے مرنا ہے ابھی اور
تنہا یہ سفر زیست کا کرنا ہے ابھی اور

جذبات کی گیرائی میں ڈوبا ہی کہاں ہوں
احساس کے دریا میں اترنا ہے ابھی اور

بادل کو ابھی چیریں گی سورج کی شعائیں
آلام کی گرمی میں نکھرنا ہے ابھی اور

مانند قمر صبح تو میں ڈوب گیا تھا
خورشید کی مانند ابھرنا ہے ابھی اور

مقتل تو کئی بار سجا میرے لہو سے
ہاں مجھکو تہ تیغ سنورنا ہے ابھی اور

مانا کہ تھکن پاؤں کی زنجیر ہے لیکن
عارف کو سرِ راہ گزرنا ہے ابھی اور

Wednesday, 24 January 2018

منقبت

باسمہ تعالٰی

وفا و عزم و تحمل کا باب ہے زینب
حسینیت کی مکمل کتاب ہے زینب

چلی ہے اوڑھ کے تطہیر کی ردا سر پہ
دیارِ ظلم میں کب بے حجاب ہے زینب

جلا کے رکھ دے جو ہر دور کی شہی کا غرور
وہ نورِ شمعِ رہِ انقلاب ہے زینب

ستم تو ہار گیا لاکھ کوششیں کر کے
بندھے ہیں ہاتھ مگر کامیاب ہے زینب

سوال رب سے کیا کون مثلِ زینب ہے؟
جواب آیا خود اپنا جواب ہے زینب

نظامِ جبر و تشدد کے خاتمے کے لئے
خدا کا سب سے الگ انتخاب ہے زینب

Monday, 22 January 2018

غزل

شہرِ الفت کی کوئی رسم نبھاتے جاتے
لاکھ روٹھا تھا سہی مجھکو مناتے جاتے

کاش ہو جائے کسی پل ترا دیدار سو ہم
راہ تکتے ہیں تری راہوں سے آتے جاتے

خانہء دل کو دھواں کرکے گھٹن چھوڑ گئے
کیا برا ہوتا اگر دل ہی جلاتے جاتے

چند لمحے کو سہی کچھ تو سکوں مل جاتا
اپنے آنسو مرے زخموں پہ گراتے جاتے

ہم نے سوچا تھا گلے ہمکو لگائے گا مگر
ہاتھ بھی اسنے ملایا نہیں جاتے جاتے

ہے خبر تمکو اجالوں سے ہمیں وحشت ہے
تم شبِ ہجر چراغوں کو بجھاتے جاتے

Sunday, 21 January 2018

سلام

باسمہ سبحانہ

کیا بتاےگا کوئی کیا مرتبہ زینب کا ہے
ساری دنیا ہے خدا کی اور خدا زینب کا ہے

ڈوبتی ایمان کی کشتی کو بعدِ کربلا
ریت کے دریا میں بس اک آسرا زینب کا ہے

بعدِ قتلِ شاہ دشتِ کربلا سے شام تک
منزلیں شبیر کی ہیں راستہ زینب کا ہے

رک نہیں سکتا سرِ عباس نیزے پر کبھی
باوفا بھائی کے آگے سر کھلا زینب کا ہے

آ نہیں سکتا کبھی صبحِ شریعت کو زوال
شام کی ظلمت میں روشن اک دیا زینب کا ہے

ٹل نہیں سکتی دعا ہرگز درِ عباس پر
ہاں اگر ہونٹوں پہ تیرے واسطہ زینب کا ہے

لہجہء شیرِ خدا کی تیغ کے جوہر بھی دیکھ
دشمنِ دینِ خدا سے سامنا زینب کا ہے

اللہ اللہ عظمتِ بنتِ علی، بعدِ حسین
مرضیء سجاد پر بھی فیصلہ زینب کا ہے

دوش پر کوہِ الم ہونٹو پہ شکرِ کبریا
عشق کی معراج ہے یا حوصلہ زینب کا ہے

تختِ شاہی منقلب ہونے میں کچھ ہی دیر ہے
گامزن قصرِ ستم کو قافلہ زینب کا ہے

دل میں اک دیرینہ خواہش ہے خدایا کر قبول
دید میں عارف کی روضہ سیدہ زینب کا ہے

سید محمد عسکری عارف

غزل

کٹھن راستوں سے گزر دھیرے دھیرے
مٹا دل سے صحرا کا ڈر دھیرے دھیرے

رہِ خار پر چھوڑ کر مجھکو تنہا
چلے سب مرے ہمسفر دھیرے دھیرے

ہر اک سانس ہے اک قدم سوئے منزل
کٹے زیست کا یوں سفر دھیرے دھیرے

ہمیں ٹھوکروں نے سبق یہ دیا ہے
چلیں سوئے منزل مگر دھیرے دھیرے

خدا جانے کس کے خیالوں میں اپنے
گزرتے ہیں شام و سحر دھیرے دھیرے

بدن سارا تیروں میں الجھا تھا لیکن
گیا اسکا سجدے میں سر دھیرے دھیرے

شرابِ جنوں کا اثر کیا بلا ہے
جلائے جو قلب و جگر دھیرے

یہ آغازِ رسمِ محبت ہے *عارف*
ملاؤ نظر سے نظر دھیرے دھیرے

Wednesday, 10 January 2018

غزل

گماں کا  تیر  کمانِ  یقیں  سے   نکلا  ہے
پھر ایک سانپ مِری آستیں سے نکلا  ہے

زمانہ سمجھا تھا مجھکو زمینِ شور مگر
ہرا  درخت مِری  سر  زمیں  سے نکلا  ہے

غبارِ  بیعتِ  فاسق  جہاں  سے   اٹھا  تھا
یزیدیت  کا  جنازہ   وہیں  سے  نکلا   ہے

ہوا  جو  گرمیء  احساس  کا   اثر  دل  پر
ندامتوں   کا   پسینہ  جبیں  سے   نکلا ہے

ہوا ہے  جب  سے ہمارا  شمار  سچوں  میں
ہماری ہاں کا بھی مطلب نہیں سے نکلا ہے

سمجھ نہ ریت کے صحرا کو ریگزارِ  عطش
ہزار   بار    سمندر    یہیں   سے   نکلا   ہے

Wednesday, 3 January 2018

غزل

ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻏﻢ ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮨﮯ
ﺳﺘﻢ ﭘﺮﺳﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﺳﻮﺩﮔﯽ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﮍﮬﮑﺮ ﻋﺰﯾﺰ ﺗﮭﺎ ﻣﺠﮭﮑﻮ
ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺁﺝ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﺳﯽ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣِﺮﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮧ ﺩﻭﮞ ﻣﺠﮭﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮨﮯ
ﻣِﺮﮮ ﺭﻓﯿﻘﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻭﻓﺎ ﮐﺎ ﺧﻮﻥ ﮐﯿﺎ
ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﻭﺳﺘﯽ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮨﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﺭﻓﯿﻖ ﻧﮧ ﺩﺷﻤﻦ ﻣﺮﺍ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﻧﮧ ﻣﺠﮭﮑﻮ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮨﮯ
ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺗﻮ ﺑﺠﮭﺎ ﮈﺍﻟﮯ ﺁﻧﺪﮬﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﭼﺮﺍﻍ
ﮐﮧ ﺍِﻥ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﺑﺎﻏﺒﺎﮞ ﮐﮧ ﺟﺴﮯ
ﮔﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﻋﺸﻖ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﻠﯽ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮨﮯ
ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﺏ ﺣﯿﻮﺍﻥ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﮯ ﻣﮕﺮ
ﺧﻮﺩ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﻮ ﮨﯽ ﺍﺏ ﺁﺩﻣﯽ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮨﮯ

خراج تحسین حسن نصراللہ

خراجِ تحسین شہیدِ مقاومت آیت اللہ سید حسن نصراللہؒ مردِ حق، سید و سردار حسن نصراللہؒ بے سہاروں کے  مددگار حسن نصراللہؒ فوجِ  ایماں کے علمدار...