Tuesday, 31 October 2017

تسکینِ دل و جانِ شہنشاہِ مدینہ

تسکینِ دل و جانِ شہنشاہِ مدینہ
ہر درد کا مسکن ہے ترا نام سکینہ

بس چار برس سن میں ستم کیا نہ اٹھائے
مغموم مناظر کا سمندر ترا سینہ

شاہد ہے تری آبلہ پائی سرِ محشر
کھینچا ہے رہِ خار پہ وحدت کا سفینہ

گر گر کے سنبھلتی رہی راہوں میں سفر کی
چھوڑا ہے مگر دین کی انگلی کو کبھی نہ

والعصر کا دل آیہء تطہیر کی جاں ہے
تو تاجِ ملوکیتِ عصمت کا نگینہ

عاشور سے اک پل کو سکوں پایا نہ تونے
دشوار ہوا قیدِ ستم میں ترا جینا

سر باپ کا پایا تو عجب حال ہوا ہے
یوں روئی تو زندانِ مصیبت میں بچی نہ

زندانِ مصائب سے سوئے خلد سدھاری
راس آیا نہ بیکس کو صفر کا یہ مہینہ

محکوم ترے اذن کا یہ ابرِ بہاراں
دریاؤں کو بخشش ترے ماتھے کا پسینہ

دل چاک ہے اور غم سے پھٹا جاتا ہے سینہ
کیونکر ہو رقم دخترِ سرور کا قرینہ

عارف جلے کرتے میں ہوئی دفن وہ مضطر
دو گز  بھی  کفن پا  نہ سکی  ہائے حزینہ

عسکری *عارف*

Saturday, 28 October 2017

موت کو خود موت آئی زندگی زندہ رہی

سلام

موت کو خود موت آئی زندگی زندہ رہی
ہاں لبِ نہرِ رواں بھی تشنگی زندہ رہی

قصرِ ظلمت میں جو پہنچا سورجوں کا قافلہ
روشنی کے سامنے کب تیرگی زندہ رہی

اک طرف عزمِ حبیب ابنِ مظاہر جاوداں
اک طرف دشتِ عطش میں کمسنی زندہ رہی

خاک ہوکر رہ گیا ہر دشمنِ کرب و بلا
ہر زمانے میں عزائے سروری زندہ رہی

بے ردا جسکو فلک نے بھی نہ دیکھا ہو کبھی
کسطرح بلوے میں بے چادر وہی زندہ رہی

پشت پر درّوں کی بارش، کربلا سے شام تک
ہاں مگر عابد کے لب پر خامشی زندہ رہی

ہڈیوں سے بھی چٹخنے کی صدا آتی رہی
ایسے عالم میں بھی دختر شاہ کی زندہ رہی

کربلا سے شام تک کیسے سفر پورا کیا
سر کھلے کسطرح ناموسِ نبی زندہ رہی

تین دن کی پیاس اور تیرِ ستم کے درمیاں
اصغرِ گلرو کے ہونٹوں پر ہنسی زندہ رہی

آ گیا سر برسرِ نوکِ سناں *عارف* مگر
ایک بندے کی زباں پر بندگی زندہ رہی

عسکری *عارف*

Friday, 27 October 2017

قید خانے میں سکینہ کا تھا نوحہ بابا

نوحہ

قید خانے میں سکینہ کا تھا نوحہ بابا
نیند آتی نہیں سینے پہ سلا لو مجھکو

شام ہوتے ہی اندھیروں سے میں گھبراتی ہوں
سن کے آواز پرندوں کی بھی ڈر  جاتی  ہوں
اپنے سر کو در و دیوار سے ٹکراتی ہوں
کچھ بھی دِکھتا نہیں اتنا ہے اندھیرا بابا
نیند آتی نہیں سینے پہ سلا لو مجھکو

ایک دو بار نہیں سیکڑوں مارے بابا
میرے رخسار پہ ظالم نے طمانچے بابا
چھوڑ کر جب سے سکینہ کو سدھارے، بابا
بن گیا گھڑکیاں کھانا ہی مقدر میرا

نیلے رخسار ہیں، کانوں سے لہو جاری ہے
قیدِ تاریک ہے، افتاد ہے، دشواری ہے
ایسا لگتا ہے کہ اب موت کی تیاری ہے
شدّتِ تشنہ لبی سے ہے برا حال مِرا

اب بھی رسی کی عزیت سے گلا دُکھتا ہے
سانس بھی لے نہیں پاتی مِرا دم گُھٹتا ہے
پیاس سے آنکھوں میں رہ رہ کے دھواں اٹھتا ہے
بھوک اور پیاس کی شدت سے بدن ٹوٹ گیا

اشک پیتی ہوں شب و روز، تو غم کھاتی ہوں
جب بھی اٹھتی ہوں نقاہت سے میں گِر جاتی ہوں
اُس پہ روتی ہوں تو درّوں سے سزا پاتی ہوں
کاش زنداں میں ہی آ جائے سکینہ کو قضا

یاد  آتا  ہے  بہت  آپکا  سینہ  بابا
کتنے دن ہو گئے سوئی نہ سکینہ بابا
ہائے  دشوار  ہوا  اب  مِرا جینا بابا
ایسی تقدیر کسی کی بھی بنائے نہ خدا

آنکھ لگتی ہے تو سونے نہیں دیتے ظالم
کُھل کے معصومہ کو رونے نہیں دیتے ظالم
مطمئن قید میں ہونے نہیں دیتے ظالم
ظلم پر ظلم کئے جاتے ہیں مجھ پر اعدا

زندگی رہ گئی بس آہ و بکا اور فریاد
ہو نہ پاؤں گی کبھی قید سے اب میں آزاد
کمسنی میں ہی ہُوا ہے مِرا بچپن برباد
ہائے اِس چار برس میں ہوں ضعیفہ بابا

غم سے پھٹتا ہے کلیجہ، تو لرزتا ہے قلم
کسیے *عارف* میں لکھو دخترِ شبیر کا غم
ہو نہیں سکتے مصائب کبھی بیبی کے رقم
شام سے آتی ہے کانوں میں یہ رہ رہ کے صدا
نیند آتی نہیں سینے پہ سلا لو مجھکو

عسکری *عارف* اکبر پوری

چہلم منانے آئی ہے زینب حسین کا

نوحہ چہلم شہدائے کربلا

برپا ہے ایک حشر سرِ دشتِ کربلا
چہلم منانے آئی ہے زینب حسین کا

روتی ہے پھوٹ پھوٹ کے زینب جگر فگار
بھائی بغیر کیسے وطن جائے سوگوار
پڑھتی ہے قبرِ سبطِ پیمبر پہ مرثیہ

اکبر کو روئے گی علی اصغر کو روئے گی
بتیس سال والے برادر کو روئے گی
جی بھر کے آج روئے گی پیاسوں کو غمزدہ

فروا پچھاڑیں کھاتی ہے قاسم کی قبر پر
کہتی ہے سر کو پیٹ کے مادر بہ چشمِ تر
قاسم اٹھو مدینے کو جاتا ہے قافلہ

اے مومنو فرات پہ منظر عجیب ہے
عباسِ باوفا کا یہ کیسا نصیب ہے
چھوٹی سی قبر میں ہے علمدارِ باوفا

غازی کی قبر دیکھ کے لرزاں ہیں سب حرم
آنسو رواں ہیں آنکھوں سے ہر اک کی دم بدم
غش کھا کے گر رہے ہیں اسیرانِ کربلا

جنگل میں چھوڑے جاتی ہے ننھی سی ایک جاں
امِّ رباب کہتی ہے لے لے کے سسکیاں
آئے گی یاد تیری بہت گھر میں مہلقہ

لیلی تو دل پہ داغِ جواں لے کے جائے گی
صدمہ جوان لال کا کیسے اٹھائے گی
پردیس میں بچھڑ گیا ہمشکلِ مصطفٰی

بچوں کی قبر دیکھ کے زینب یہ کہ پڑی
بچوں معاف کرنا میں تمکو نہ روؤں گی
بھیا کو اپنے روؤں گی میں غم کی مبتلا

کرب و بلا میں فاطمہ زہرا کے چین کا
چہلم بپا ہے آج امامِ حسین کا
ہے سرخ آسماں تو لرزتی ہے کربلا

کچھ یوں کیا شہیدوں کے چہلم کا اہتمام
اہلحرم نے پیش کئے آنسوؤں کے جام
جی بھر کے رویا تین شب و روز قافلہ

کیونکر بیاں ہو مجھ سے قیامت کا وہ سماں
*عارف* جگر میں تاب نہیں، فکر ہے دھواں
زینب کے دل سے پوچھئے وہ غم کا واقعہ

Tuesday, 24 October 2017

گل کرکے شمعِ بزمِ شہادت شبِ دھم

گل کرکے شمعِ بزمِ شہادت شبِ دھم
اصحاب کے گماں کو یقیں سے مٹا دیا

تیغ و تبر، نہ خنجر و تیر و کمان سے
بیعت کو شہ نے اپنی نہیں سے مٹا دیا

چہرے کو مل کے پائے بنِ بوتراب پر
حر نے ندامتوں کو جبیں سے مٹا دیا

اٹھی تھی قصرِ شام سے بیعت کی تیرگی
بنتِ علی نے اُسکو وہیں سے مٹا دیا

اٹھّے نہ جانے کتنے خلافِ غمِ حسین
سب کا وجود حق نے زمیں سے مٹا دیا

Sunday, 22 October 2017

کہ اب بھی اُسکا کٹا ہوا سر سناں پہ قرآں سنا رہا ہے

باسمہ سبحانہ تعالٰی

کہ اب بھی اُسکا کٹا ہوا سر سناں پہ قرآں سنا رہا ہے
اسی لئے تو یزیدیت کو حسین کا ڈر ستا رہا ہے

ہوں تین دن کا میں بھوکا پیاسہ،  کہاں اسے یہ گلہ رہا ہے
بقائے وحدانیت کی خاطر وہ اپنی گردن کٹا رہا ہے

کہ اب بھی اسکی کٹی رگوں سے صدا وہ ھلمن کی آ رہی ہے
تمہیں خبر ہے حسین تمکو مدد کی خاطر بلا رہا ہے

کبھی ہے کڑیل جواں کی میت، کبھی ہے ششماہے کا جنازہ
کبھی بھتیجے کے ٹکڑے رن سے حسین خیمے میں لا رہا ہے

خیالِ تشنہ لبی کہاں ہے؟ جنوں سے چہرے چمک رہے ہیں
زباں میں کانٹے پڑے ہیں لیکن لبوں پہ شکرِ خدا رہا ہے

طمانچے رخ پر، گلے میں رسی، یتیم بچی پہ کیا ستم ہے
کفن کی صورت بدن پہ اُسکے بس ایک کُرتا جلا رہا ہے

سلام ہو بے شمار تجھ پر، اے کاروانِ حرم کے سردار
قیامتوں کے ہجوم میں بھی، جواں ترا حوصلہ رہا ہے

وہ دیکھ کڑیل جوان اکبر سناں سجائے ہوئے جگر پر
غرورِ بیعت کو اپنے پیروں تلے کچلتا ہی جا رہا ہے

کچھ اسطرح سے فرات پر وہ وفا کی حرمت بڑھا رہا ہے
خود اپنے ہاتھوں سے تشنگیء فرآت غازی مٹا رہا ہے

عطش کے صحرا میں اُسکی سوکھی زباں ہی شمشیر ہو گئی ہے
رُلا کے فوجِ ستم کو ننھا سپاہی اب مسکرا رہا ہے

عزائے سبطِ نبی بقا ہے، یہی تو جینے کا فلسفہ ہے
قسم خدا کی غمِ شہیداں حیات کا سلسلہ رہا ہے

نہ رُک سکا ہے نہ رُک سکے گا حسین کا غم سدا رہے گا
محافظِ ذکرِ شاہِ والہ ازل سے خود کبریا رہا ہے

گزرتے لمحوں کے ساتھ اِس پر شباب بڑھتا ہی جا رہا ہے
گزر گئیں چودہ صدیاں لیکن حسین کا غم نیا رہا ہے

رکا ہوا ہے نظامِ عالم، علی کا لہجہ گرج رہا ہے
یزید کی سلطنت ہے زد میں، یزید بھی تھرتھرا رہا ہے

ہماری خوشیاں ہیں کربلا سے ہمارے غم بھی ہیں کربلا سے
ازل سے طرزِ حیات *عارف* ہمارا صبر و وفا رہا ہے

عسکری *عارف*

Monday, 16 October 2017

تذکرہ ہوتا تھا جب بھی ظلم کی روداد کا

تذکرہ ہوتا تھا جب بھی ظلم کی روداد کا
غم سے پھٹتا تھا کلیجہ سیدِ سجاد کا

اشکِ خوں روتی تھیں آنکھیں عابدِ بیمار کی
یاد آتا تھا جو منظر شام کی افتاد کا

خاک پہ گرتا تھا غش کھا کے مِرا چوتھا امام
پشت پر لگتا تھا جب دُرّا ستم ایجاد کا

کربلا میں گود اجڑی مانگ بھی سونی ہوئی
ہائے یہ اجڑا مقدر بانوئے ناشاد کا

*بے ردائی آلِ احمد کی یہ دیتی ہے صدا*
*سخت ہے شبیر سے بھی امتحاں سجاد کا*

خون کے آنسو بہاتے ہیں امامِ عصر بھی
جب نگاہوں میں ابھر آتا ہے غم اجداد کا

کربلا والوں نے اپنی گردنوں کی دھار سے
کاٹ ڈالا ہے گلا ہر خنجرِ بے داد کا

باپ کی فرقت میں روتی تھی سکینہ جب کبھی
رخ پہ لگتا تھا طمانچہ شمر سے جلاد کا

جب گئی سجاد کے مجروح پیروں پر نگاہ
خوف سے تھرّا گیا سارا بدن حدّاد کا

کوئی لکھ پایا نہ *عارف* عابدِ مضطر کا غم
موم ہوکر رہ گیا ہر اک جگر فولاد کا

سید محمد عسکری *عارف*

پیاس کے رخ پر وفاؤں کا طمانچہ رکھ دیا

پیاس کے رخ پر وفاؤں کا طمانچہ رکھ دیا
مشک میں عباس نے لمحوں میں دریا رکھ دیا

کر نہیں سکتا اندھیرا اب یہاں کوئی یزید
شام کی قسمت میں زینب نے اجالا رکھ دیا

دشمنِ زہرا کو دنیا میں جلانے کے لئے
دین میں رب نے تولا اور تبرا رکھ دیا

حشر تک گونجا کرے اللہ اکبر اس لئے
*بڑھ کے اکبر نے اذانوں میں کلیجہ رکھ دیا*

کیا سمجھ پاؤگے تم اِن آنسوؤں کے مول کو
جنکے بدلے خلد میں خالق نے خانہ رکھ دیا

تاابد شبیر پر خالق نے رونے کے لئے
صورتِ اشکِ عزا آنکھوں میں دریا رکھ دیا

آ گئے پھر راہب و فطرس برائے مدعا
گھر میں جب ہم نے علی اصغر کا جھولا رکھ دیا

جب کسی نے ماتمِ شبیر کو بدعت کہا
سورہء یوسف کا پھر ہم نے حوالہ رکھ دیا

رکھ دیا جس نے غمِ شبیر کو بالائے طاق
نامہء اعمال میں اُس نے اندھیرا رکھ دیا

کسطرح لیکر گئے شہ لاشہء اکبر نہ پوچھ
خاک پر رکھا جنازہ پھر اٹھایا رکھ دیا

پھوٹ کر رونے لگی فوجِ ستم جب شاہ نے
گرم ریتی پر علی اصغر کو پیاسہ رکھ دیا

غربتِ شبیر پر گریہ کناں ہے ذوالفقار
قبر میں شبیر نے اصغر کا لاشہ رکھ دیا

میرے مالک نے شرف *عارف* مجھے کیسا دیا
خانہء دل میں مرے غم کربلا کا رکھ دیا

سید محمد عسکری *عارف*

Friday, 6 October 2017

Azadari

Ye kisne keh diya Tumse ki Biddat hai Azadari
Baqol e sayyad e mursal ibadat hai Azadari

Kisi mufti ke fatwe se Kabhi Ye Gir Nhi sakti
Ke khud Allah ke zer e Hifazat hai Azadari

Na Jane Kitni tahzeebe jaha.n me ho Gayi.n nabood
Magar chaudah so Salo se Salamat hai Azadari

Nizam e Jabr iske samne tik hi Nahi Sakta
Khilaf e Zulm takrane ki taqat hai Azadari

Kaha.n Sabko ata hoti hai ye nemat zamane me
Khuda ki khaas bando ko inayat hai Azadari

Wafa o ilm o hikmat ki Sadaqat ki Muhabbat ki
Zaraat hai, zaroorat hai, alamat hai Azadari

Baghair iske Nahi mumkin kisi Insan ki bakhshish
Baroz e Hashr Saman e Shifaat hai Azadari

Kabhi Shabbir ke Gham me riyakari Nahi karna
Aqeedat hai, Mawaddat hai, Sharafat hai Azadari

Ye Matam Ik tamacha hai Ameer E Sham ke Rukh Par
Tareeq e Inhedaam e Qasr e baiyyat hai Azadari

Azadaro Ise khud se Juda Hone Nahi Dena
Safeer E maqsad e Sheh Ki Amanat Hai Azadari

Zaban o rung o Maslak ki Yaha.n Bandish Nahi *Aarif*
Safeer E ittehad e Qaum o Millat hai Azadari

Tuesday, 3 October 2017

Sada Maula Abbas

786/110
صدائے مولا عباس

اے علمدارِ حسین اے علمدارِ حسین
تجھ سا دنیا میں نہیں کوئی وفادارِ حسین

مٹ نہیں سکتی کبھی تیری کہانی عباس
تجھ سے اسلام کی باقی ہے جوانی عباس
روزِ عاشور تری تشنہ دہانی عباس
ترے ہونٹوں کو ترستا رہا پانی عباس
ناز ہے تجھ پہ وفا کو اے وفادارِ حسین

اک اکیلا ہے کئی لاکھ سے بڑھکر عباس
تجھ سے تھراتے ہیں فولاد کے لشکر عباس
اہل باطل کو ستاتا ہے ترا ڈر عباس
شہ رگِ بیعتِ فاسق پہ ہے خنجر عباس
قوتِ صبر و رضا، قوتِ انکارِ حسین

کوئی دنیا میں نہیں ہے ترا ہمسر مولا
روحِ تہزیبِ وفا، علم کا پیکر مولا
شیر، ضیغم بھی اسد بھی ہے غضنفر مولا
بحرِ اخلاص، سخاوت کا سمندر مولا
تو ہے سلطانِ سخا برسرِ دربارِ حسین

ملک الموت ترے نام سے گھبراتا ہے
آسماں بھی تری ہیبت سے لرز جاتا ہے
ہر یزیدی کا جگر سینے میں تھراتا ہے
دیکھکر تجھکو عدو خوف سے مر جاتا ہے
ثانیء شیرِ خدا مرحبا جرّارِ حسین

جب قدم جنگ کے میداں میں ترے آتے ہیں
پاؤں نو لاکھ کے لشکر کے اکھڑ جاتے ہیں
شور اٹھتا ہے یہ بھاگو کہ علی آتے ہیں
اہلِ شر شام کی دیوار سے ٹکراتے ہیں
ترا حملہ ہی قیامت ہے فداکارِ حسین

کربلا میں بھی نہ مل پائی تجھے اذنِ وغا
حسرتِ جنگ نے سینے میں ہی دم توڑ دیا
کٹ گئے ہاتھ ترے، تیر سے مشکیزہ چھدا
ہائے افسوس کہ غربت میں تجھے آئی قضا
کربلا میں نہ رہا ہائے علمدارِ حسین

اے نگہبانِ حرم، بابِ حوائج عباس
تجھ سے ہر ایک عزادار لگائے ہے یہ آس
اپنی ہر ایک کا خطا کا رہے ہمکو احساس
کر عطا ہمکو وفا، علم و ہنر کے الماس
لب پہ *عارف* کے دعا ہے یہ مددگارِ حسین

*عارف* کمال اکبرپوری
بتاریخ 3 اکٹوبر 2017
١٢ محرم الحرام  ١٤٣٨ عیسوی

خراج تحسین حسن نصراللہ

خراجِ تحسین شہیدِ مقاومت آیت اللہ سید حسن نصراللہؒ مردِ حق، سید و سردار حسن نصراللہؒ بے سہاروں کے  مددگار حسن نصراللہؒ فوجِ  ایماں کے علمدار...